قطر : یورپی ممالک کے لئے ’ایل این جی‘ گیس کی منتقلی میں التواء

تاثیر،۲۴ جنوری۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

دوحہ،24جنوری:بحیرہ احمر میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر ثانی میں’ ایل این جی ‘ کی برآمد کرنے والے نمایاں ترین ممالک میں سے قطر نے بعض یورپی ملکوں کو ‘ایل این جی’ کی منتقلی ملتوی کر دی ہے۔ یہ تخیر سفری تعطل اور سفر کا دورانیہ طویل ہوجانے کیوجہ سے کرنا پڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق قطر کی طرف سے متعلقہ یورپی ملکوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انہیں شپمنٹس کی رسائی اب نئے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوگی۔ تاجروں کا کہنا ہے فیصلہ معاہدے کے مطابق ذمہ داریاں پورا کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ عالمی سپلائی میں ردوبدل کے ساتھ ممکن بنائی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق اب نئے نظام الاوقات کے تحت ڈیلیوری کو دوسری جگہوں سے موڑ جا رہا ہے تاکہ یورپ کے نزدیک دستیاب کارگوز کو تبدیل کر رہا ہے۔ ‘بلومبرگ’ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 15 جنوری سے، قطر نے بحیرہ احمر اور نہر سویز کے ذریعے مختصر راستے کے بجائے، جنوبی افریقہ میں ‘کیپ آف گڈ ہوپ’ کے ارد گرد یورپ کے لیے کم از کم چھ شپمنٹس کا رخ موڑ ا گیا ہے۔کموڈٹی انٹیلی جنس فراہم کرنے والی کمپنی ‘آئی سی آئی ایس ‘کے مطابق، برطانیہ کے سفر میں تقریباً نو دن کا اضافہ ہوگیا ہے۔تاہم’ قطر انرجی’ نے فوری طور پران اطلاعات پر تبصرے سیگریز کیا ہے۔گیس مارکیٹ نے اب تک بحیرہ احمر میں رکاوٹوں کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے، جہاں یمن کے حوثی عسکریت پسندوں کے میزائل اور ڈرون حملوں نے بہت سے تجارتی بحری جہازوں کو علاقے سے دور رہنیپر مجبور کر دیا ہے۔
واضح رہے گیس کی پیداوار قابل تجدید ذرائع کی مضبوط پیداوار، صنعتوں کے لئے کم طلب اور متبادل ‘ ایل این جی’ سپلائی کے درمیان یورپی گیس فیوچر چھ ماہ کی کم ترین سطح کے قریب ہے۔ مزید یہ کہ قطر نے برآمدات میں کمی نہیں کی ہے، حالانکہ کچھ کارگو اپنی منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لے رہے ہیں۔’شپ ٹریکنگ’ کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک سے ایل این جی کی ترسیل گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 7 فیصد زیادہ ہے۔سوشل میڈیا پر کی گئی ایک پوسٹ کے ذریعے دیئے گئیپیغام کے مطابق، اٹلی کے ایڈیسن نے کہا کہ اس کے ‘ایل این جی ‘سپلائر نے کمپنی کو مطلع کیا کہ 31 جنوری سے 5 فروری تک ایڈریاٹک کے ایک ٹرمینل پر طے شدہ کارگو کی ترسیل نہیں کی جائے گی۔ تاہم ایڈیسن نے اس سپلائر کا نام نہیں لیا ہے۔قطر کا کمپنی کے ساتھ ایک طویل مدتی معاہدہ ہے، اور اس سے قبل ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک اس مدت کے لیے ‘ایل این جی’ کی کھیپ فراہم نہیں کر سکے گا۔