تاثیر،۲۹ جنوری۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
واشنگٹن، 29 جنوری :پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں وائٹ ہاؤس کے میڈیکل یونٹ میں ہزاروں ڈالر کی رقم غلط طریقے سے خرچ کی گئی اور عملے کے اُن افراد کو بھی ایسے طبی نسخے تجویز کیے جن میں کنٹرول شدہ ادویات تھیں، اور جو اس کے مجاز نہ تھے۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پینٹاگون کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے بڑی طبی کمپنیوں کے برانڈ ناموں کی وجہ سے ادویات پر دسیوں ہزار ڈالر زیادہ خرچ کیے حالانکہ وہی ادویات دیگر کمپنیوں کی جانب سے کم قیمت پر دستیاب تھیں۔ہہ میڈیکل یونٹ، وائٹ ہاؤس کے ملٹری آفس کا حصہ ہے، جس نے وفاقی حکومت اور محکمہ دفاع کے رہنما اصولوں کی تعمیل نہیں کی۔روئٹرز کے مطابق یہ رپورٹ آٹھ جنوری کو جاری کی گئی تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عملے کے ایسے افراد کو بھی مفت خصوصی طبی اور فوجی میڈیکل سہولیات فراہم کی گئیں جو اس کے لیے اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ان افراد کو کنٹرولڈ مواد والی ادویات کے نسخے بھی جاری کیے گئے۔رپورٹ کے مطابق ‘وائٹ ہاؤس میڈیکل یونٹ کے فارماسیوٹیکل مینجمنٹ نے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر بڑے برانڈ کے ناموں کی ادویات حاصل کرکے ڈی او ڈی فنڈز کو غیر موثر طریقے سے استعمال کیا۔ اسی طرح کنٹرول شدہ ادویات کے پھیلاؤ کے خطرے کو بڑھایا۔’رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونٹ میں حفاظتی معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے موثر کنٹرول کا فقدان تھا، یہ ملٹری ہیلتھ سسٹم کے رہنماؤں کی نگرانی کے تابع نہیں تھا، اور مریض کی صحت کے لیے خطرات بڑھ گئے تھے۔وائٹ ہاؤس میڈیکل یونٹ نے سنہ 2017تا2019 کے درمیان ایمبین نامی دوائی کے 8,900 یونٹس خوراکوں پر 46,500 ڈالر خرچ کیے، جو کہ ایک برانڈ نام کی نیند کی دوائی ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ دیگر کمپنیوں کی نیند کی انہی ادویات کے برابر خوراک کی اسی مقدار کی لاگت مارکیٹ میں اس سے 174 گنا کم ہے۔میڈیکل یونٹ نے پروویگل کی 4,180 یونٹ خوراکوں پر 98,000 ڈالر خرچ کیے، جو ایک برانڈ نام کا محرک ہے، اسی فارمولے کی یہ ادویات دیگر کمپنیوں کی جانب 1,800 ڈالر میں مل جاتیں۔دونوں ادویات مریضوں کی شناخت کی تصدیق کیے بغیر دی گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوپیئڈز اور نیند کی ادویات کا درست حساب کتاب نہیں رکھا گیا تھا اور ان کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ہاتھ سے فائلیں ترتیب دی گئیں جن کو پڑھنا بہت مشکل تھا اور جن میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں۔رپورٹ پینٹاگون کے انسپکٹر جنرل کے دفتر کے نتائج کو پیش کرتی ہے جس نے 2018 میں شکایت موصول ہونے کے بعد ستمبر 2019 سے فروری 2020 تک یونٹ کی چھان بین کی۔یہ 2009 سے 2018 تک پھیلی ہوئی ہے اور اس طرح بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی صدارتی انتظامیہ کا احاطہ کرتی ہے۔ لیکن اس کے زیادہ تر نتائج 2017-2019 پر مرکوز ہیں جب ٹرمپ صدر تھے۔رپورٹ کے نتائج موصول ہونے پر اسسٹنٹ سیکریٹری دفاع برائے صحت امور لیسٹر مارٹنیج لوپیز نے انسپکٹر جنرل کو ایک میمو بھیجا جس میں اس کی تمام سفارشات کی منظوری دی گئی۔