تاثیر،۷فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
اتر پردیش اسمبلی میں رام مندر کے حوالے سے کل بولتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے متھرا اور کاشی کے سلسلے میں بھی اپنے عندیہ کا اظہا ر تقریباََ واضح لفظوں میں کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے موجودہ سیاسی منظر نامے کا موازنہ مہابھارت سے کرتے ہوئے کہا کہ پانڈوؤں نے دریودھن سے صرف پانچ گرام مانگے تھے، لیکن دوریودھن نے نہیں دیا۔ ایودھیا، متھرا اور کاشی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہم نے صرف تین جگہیں مانگی ہیں۔ ہم ایودھیا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں پانڈو یاد آتے ہیں۔ کرشن بھگوان دُوریودھن کے پاس گئے تھے اور کہا تھا کہ ہمیںپانچ گاؤں دے دو اور باقی ساری زمین اپنے پاس رکھ لو، لیکن دُریودھن وہ بھی نہ دے سکا۔ یہاں تک کہ اس نے بھگوان کرشن کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔
یوگی آدتیہ ناتھ کو جو کہنا تھا اسے کہتے ہوئے اس کی وضاحت بھی کی اور کہا یہی تو ہوا تھا ایودھیا کے ساتھ، ایسا ہی ہواکاشی کے ساتھ ایسا ہی ہوامتھرا کے ساتھا۔ پانڈووں نے بھی صرف پانچ گرام مانگے تھے، لیکن یہاں کا سماج ، یہاں آستھا صرف تین کی بات کر رہی ہے۔ اور اس لئے کر رہی ہے کیوں کہ تینوں خاص جگہیں ہیں۔یہ بھگوان کے اوتار کی سرزمین ہیں۔ یہ عام بات نہیں ہے، لیکن ایک ضد ہے۔ جب وہ ضد سیاسی ہونےلگتی ہے تو وہیں سے پھر تنازعہ کی صورتحال پیدا ہونے لگتی ہے۔ یوگی نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں لوگوں کے عقیدے کی توہین ہوں اور اکثریتی طبقہ کو گڑ گڑاتا رہے، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جو کام ہو رہا ہے وہ آزاد بھارت یعنی 1947 میں ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ ایودھیا کاشی اور متھرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا’’ہم نے صرف تین جگہیں مانگی ہیں۔ دوسری جگہوں سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگوں نے ایودھیا کااُتسو دیکھا تو نندی بابا نے کہا کہ بھائی ہم کیوں انتظار کریں؟ انتظار کیے بغیر، رات کو بیریکیڈ توڑ وا ڈالے۔ اب ہمارے کرشن کنہیا کہاں ماننے والے ہیں؟ بھارت کے مسلم حکمرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیرونی حملہ آوروں نے نہ صرف اس ملک کی دولت لوٹی ہےبلکہ اس ملک کی آستھا کو بھی پامال کرنے کا کام کیا ۔ آزادی کے بعد ان حملہ آوروں کی عزت افزائی مذ موم حرکت کی گئی۔ اور وہ بھی صرف ووٹ بینک کے لئے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار اس بات کو دہرایا ’’ دُوریودھن نے کہا تھا کہ وہ سوئی کی نوک کے برابر بھی زمین نہیں دیگا۔ پھر تو مہابھارت ہونا ہی تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کوروا کی طرف ختم ہو گیا۔‘‘ظاہر ہےایک طرف اتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ’’ مہابھارت ‘‘ کے سایاق سباق میں دھرم پر مبنی ملک کی موجودہ سیاست پر اپنے خیالات اور عزائم پر روشنی ڈال رہے تھے اور دوسری طرف اگلے لوک سبھا انتخابات کے مد نظر ایک خاص کمیونیٹی کے ووٹ کو پولرائزڈ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ دھرم اور سیاست آنکھ مچولی کھیل رہی ہو۔
واضح ہو کہ آر ایس ایس کے نظریہ کے مطابق پورے قرون وسطی کا بھارت غلامی کی زنجیروں میں جکڑا رہا۔ایسے میں مسلم حکمرانوں کے سلسلے میں منفی باتیں کہنا اور ان کے نشانات اور تعمیرات کے وجود کو ہٹانا ایک خاص مشن کا حصہ ہے۔حالانکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی خواہش تھی کہ حکومت کو ہمیشہ سیکولر ر اور مذہبی پروگراموں سے دور رہے، لیکن وقت کے ساتھ حالات میں تبدیلی آتی گئی۔ اور پران پتریشٹھا تک آتے آتے بہت کچھ بلا ہوا نظر آنے لگا ہے۔معروف مورخ مؤرخ مکل کیسون کے مطابق آزادی کے بعد کی سیاست کسی بھی حالت میں مذہب اور ریاست کے درمیان قائم لکشمن ریکھا کو نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ دوسری طرف آج مذہب اور سیاست کے درمیان کی لکیر تقریباََ مٹ سی گئی ہے۔ کی سیاست نریندر مودی نے مذہب اور ریاست کے درمیان کی لکیر کو تقریباً مٹا دیا ہے۔مکل کیسون کہتے ہیں ایودھیا میں رام مندر ایک طاقتور مذہبی علامت کے ساتھ ساتھ اکثریت کی بالادستی کا سیاسی پیغام ہے۔بابری مسجد سنگھ اور اس کے لیڈروں کے کئی دیگر مساجد کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے سلسلے کی پہلی مسجد ہے، جس پر کھلے عام فتح کا اعلان کیا گیا ہے۔ اکثریت کے جذبات کو مسلسل بھڑکانے اور اقلیتوں کو ڈرانے کی یہ کوشش ہے۔اس کوشش کو ملک کے جمہوری نظام کے لئے بہتر نہیں مانا جا سکتا ہے۔ ا سی ماہ، عدالت نے پجاریوں کو بنارس کی گیانواپی مسجد میں پوجا پاٹھ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی نچلی عدالت کے اس فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ۔
مورخ مؤرخ مکل کیسون کہتے ہیں ’’اسی طرح کا مطالبہ متھرا کی مسجد کے حوالے سے بھی کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کانگریس کی نوآبادیاتی مخالف قوم پرستی کے برعکس آر ایس ایس جس ہندو اکثریتی قوم پرستی کو 1925 میں اپنے قیام کے بعد سے قائم کرنا چاہتی تھی، اب پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی کے قومی ایگزیکٹو ممبر اور مصنف سپن داس گپتا ، جو راجیہ سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہیں، کو یقین نہیں ہے کہ رام مندر کی تعمیر اور وہاں پران پرتیشٹھا اتسو میں پی ایم مودی کے آنے سے ہندوستان کا سیکولرازم خطرے میں ہے۔ان کا سوال ہے کہ کیا قرون وسطی کے ہندوستان میں عبادت گاہوں پر حملوں کو جدید جمہوری ہندوستان میں ہندو بمقابلہ مسلمان کے طور پر دیکھا جانا چاہئے؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر مذہب کی بنیاد پر امتیاز ہوتا ہے تو ہم ایسا کہہ سکتے ہیںکہ بی جے پی اس وقت بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے اور اپنی خواہشات کے مطابق ہندوستانی جمہوریہ کی تشکیل کر رہی ہے۔سپن داس گپتا کا دعویٰ ہے بھارت کا سیکولرزم خطرے میں نہیں ہے۔سماجی سطح پربھارت جیسا کل تھا، ویسا ہی آج بھی ہے۔
********