! سندیشکھلی : ہنگامہ ہے کیوں برپا

تاثیر،۲۶فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

مغربی بنگال کے سندیشکھلی میں خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے معاملے میں بی جے پی پوری جارحیت کے ساتھ ممتا بنرجی حکومت کے خلاف میدان میں ہے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود ریاست میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ سندیشکھلی کیس کے ملزمان کو حکومت سے تحفظ مل رہا ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ خواتین اس کا مضبوط ووٹ بینک ہیں۔چنانچہ خواتین کے وقار کی حفاظت اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ایسے میں اب یہ پیغام بھی عام کیا جا رہا ہے کہ سندیشکھلی کانڈ کیس مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی حکومت کے خلاف ’’نندی گرام‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے مد نظر بی جے پی معاملے کو ہوا دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے لئے ایک بڑی مہم چلانے کی تیاری ہور ہی ہے۔ اگلے ماہ وزیر اعظم نریندر مودی تین بار مغربی بنگال کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دوران وہ تین عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ ان میں سے ایک جلسہ سندیشکھلی کے قریب منعقد ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے 2014 کے انتخابات کے دوران خواتین کی حفاظت کا مسئلہ بھی زور و شور سے اٹھایا تھا۔ اس وقت بی جے پی نے انتخابی نعرہ دیا تھا ’’بہت ہوا ناری پر وار، اب کی بار مودی سرکار‘‘ ۔ خواتین کے تحفظ کے معاملے میں بی جے پی کے سروکار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب پوزیشن ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی بات کرتی ہے تو بی جے پی لیڈر ملک کے عوام کو چار ذاتوں میں یہ کہہ کر تقسیم کرتے ہیں کہ غریبوں، کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کے علاوہ ملک میں کوئی دوسری ذات نہیں ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ سندیشکھلی کے معاملے نے ٹی ایم سی کو گھیرنے کا ایک بڑا موقع ہمیں فراہم کیا ہے۔
واضح ہو کہ سندیشکھلی مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ ضلع کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں شاہجہان شیخ نام کے ایک ٹی ایم سی لیڈر پر خواتین کے جنسی استحصال کا الزام ہے۔ اس حوالے سے مسلسل احتجاج جاری ہے۔وہاں تشدد 5 جنوری کو شروع ہوا جب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی ٹیم ٹی ایم سی لیڈر شاہجہان شیخ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے پہنچی۔ ای ڈی کروڑوں روپے کے راشن تقسیم گھوٹالے کی تحقیقات کے لیے چھاپے مارنا چاہتا تھا۔اس کے حامیوں نے ای ڈی کو روکنے کی کوشش کی۔ سرکاری عملہ پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد وہاں کی خواتین نے شاہجہان پر ان کی زمین پر زبردستی قبضہ کرنے اور کئی سالوں تک ان کا جنسی استحصال کرنے کا الزام لگایا۔دوسری جانب سندیشکھلی معاملے کو کچھ لوگ ’’نندی گرام معاملے‘‘ جیسا مان رہے ہیں۔حالانکہ’’نندی گرام معاملہ‘‘ اس سے مختلف تھا ۔ 2007 میں نندی گرام میں زمین کے حصول کے خلاف تحریک چلی تھی۔ مشتعل افراد پر فائرنگ کی گئی، جس میں 14 افراد مارے گئے۔ اس تحریک نے مغربی بنگال میں بائیں بازو کی تین دہائیوں پر محیط حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ ٹی ایم سی لیڈر ممتا بنرجی مشتعل افراد کی ہمدرد بن کر ابھریں۔ اس تحریک کے ذریعے اقتدار تک کی رسائی کا راستہ ان کے لئے آسان ہو گیا تھا۔ بی جے پی ’’سندیشکھلی معاملے‘‘ کو ممتا بنرجی کو اقتدار سے باہر کرنے کا ایک بڑا موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے بی جے پی لیڈر دنیش ترویدی کا کہنا ہے کہ’’سندیشکھلی معاملے‘‘ کے آئینے میں انہیں نندی گرام تحریک نظر آتی ہے۔ ٹی ایم سی وہی غلطیاں کر رہی ہے، جو اس وقت بائیں بازو نے کی تھی۔ تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ٹی ایم سی سے بی جے پی میں گئے دنیش ترویدی کا دعویٰ ہے’’ پہلے عوام خوف کی وجہ سے ٹی ایم سی کی حمایت کر رہے تھے،اب ان کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ سندیشکھلی میں انتظامیہ کی ملی بھگت سے خواتین کو عرصہ دراز سے ہراساں کیا جا رہا ہے‘‘۔ بی جے پی نے سندیشکھلی کی متاثرہ خواتین پر ایک دستاویزی فلم بھی جاری کی ہے۔اب تک کے پروگرام کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی 1 اور 2 اور پھر 6 مارچ کو مغربی بنگال میں رہیںگے اور عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ بی جے پی نے اپنے قومی کنونشن میں سندیشکھلی کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا۔
دریں اثناءبی جے پی کے ذریعہ سندیشکھلی معاملے کو اس شد و مد سے اٹھائے جانےکی ضرورت پر تبصرہ کرنے والے مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ لوک سبھا انتخابات کے مد نظر کیا جا رہا ہے۔ مغربی بنگال میں لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے ان میں سے 18 سیٹیں جیتی تھیں۔ یہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی اب تک کی سب سے بڑی جیت تھی۔ اس بار بی جے پی نے 30 سیٹوں کا ہدف رکھا ہے۔ اس میں خواتین ووٹرز کا کردار اہم ہوگا۔ ممتا بنرجی کو اب تک خواتین ووٹرز کی حمایت حاصل رہی ہے۔ بی جے پی سندیشکھلی کے ذریعے ممتا حکومت کو خواتین مخالف ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔وہ زور و شور سے کہتی پھر رہی ہے کہ ممتا کے دور حکومت میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔
واضح ہو کہ مغربی بنگال میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ خواتین ووٹر ہیں۔ ان پر اپنی ہمدردی کا نفسیاتی جادو چلا کر ووٹ حاصل کرنے کے لئے بی جے پی اس معاملے پر اسمبلی سے لے کر سندیشکھلی اور ریاست کے دیگر حصوں تک احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔وہیں دوسری طرف ممتا بنرجی نے سندیشکھلی میں تشدد کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو ذمہ دار ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ سرسوتی، پوجا کے دوران دیگر منصوبے بھی تھے۔ ممتا بنرجی نے اسمبلی میں سندیشکھلی کے مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن کے ہنگامے کے درمیان ممتا بنرجی نے کہا ’’ہم نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی اور نہ ہی ہونے دیں گے۔سندیشکھلی معاملے میں قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ ہم سندیشکھلی کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ غلط کام میں ملوث کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔سندیشکھلی آر ایس ایس کی آماجگاہ ہے۔8۔7 سال پہلے وہاں فسادات ہوئے تھے۔ سندیشکھلی حساس جگہوں میں سے ایک ہے۔ سیاسی مبصرین کا بھی یہ سوال اپنی جگہ درست ہے کہ منی پور میں خواتین کی سر عام بے آبروئی پر چپ رہنے والے لوگ سندیشکھلی کے معاملے پر آخر اتنی ہنگامہ آرائی کیوں کر رہے ہیں ؟
***********************************