تاثیر،۲۷فروری ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
غزل گائیکی کی دنیا میں اپنا خاص مقام رکھنے والے پنکج اُدھاس نے گزشتہ سوموار یعنی 26 فروری کی صبح تقریباََ 11 بجے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔جیسے ہی ان کی دائمی جدائی کی اندوہناک خبر عام ہوئی سوشل میڈیا میں ہلچل سی مچ گئی۔ ان کے لاکھوں کروڑوں مداحوں کا غمزدہ ہوجانا فطری تھا۔پھر اظہار تعزیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ، جو ابھی تک جاری ہے۔ان کے انتقال کے فوراََ بعد یہ چرچا ہو نے لگا کہ پنکج ادھاس کی آواز کو لوگ کانوں سے نہیں بلکہ دلوں سے سنا کرتے تھے۔پھر آواز کے زیر و بم اور الفاظ کی ادائیگی کا انداز دھیرے دھیرے دلوں کی تہہ میں اتر کر دھڑکنوں میں تبدیل ہو جایا کرتا تھا۔غم ِزندگی سے مشورہ کرتے کرتے پنکج اُدھاس نے چپکے سے ایسی دنیا کی راہ لی ہے،جس سے گزرنے والے کبھی واپس نہیں آتے۔
پنکج اُدھاس کافی دنوں سے بیمار تھے۔ انہیں 10 دن قبل سانس لینے میں دشواری کے باعث ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ علاج کے دوران ہی ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کی خبر ان کی بیٹی نایاب نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’انسٹاگرام‘‘ پر پوسٹ کی تھی۔اس کے بعد ان مداحوں کے ذریعہ اظہار تعزیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ختم ہونے کا نام نہیں ہے۔صدر جمہوریہ دروپدی مرمو اور وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پنکج اُدھاس کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ صدر جمہوریہ نے کہا’’پدم شری اور دیگر کئی ایوارڈز سے نوازے گئے پنکج ادھاس جی نے موسیقی کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘‘۔ معروف گلو کار کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ’’ وہ بھارتی موسیقی کے ایک ایسے مینار تھے، جنہوں نے اپنی آواز سے ہر نسل کے لوگوں کو مسحور کیا۔‘‘ پنکج ادھاس کو ’’چٹھی آئی ہے‘‘ گانے سے خوب پہچان ملی۔ ا پنی مخملی آواز کی وجہ سے ہر گھر میں جانے اور پہچانے جانے لگے۔
قابل ذکر ہے کہ پنکج ادھاس نے اپنے کیریئر کا آغاز سال 1980 میں ریلیز ہونے والی غزل البم ’’آہٹ‘‘ سے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی سپر ہٹ فلموں میں غزلیں گائیں، ان میں سنجے دت کی فلم ’’نام‘‘ کی ایک غزل بھی شامل ہے۔ اس طرح پنکج ادھاس نے پچھلے کئی سالوں میں اپنی کئی غزلوں کے البم ریلیز کئے۔ انھیںبھارت کے چوتھے بڑے سول ایوارڈ پدم شری سے بھی نوازا گیا تھا۔ پنکج نے 1982 میں فریدہ ادھاس سے شادی کی تھی۔ ریوا ادھاس اور نایاب ادھاس ان کی دو دو بیٹیاں ہیں۔انتقال کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی۔ وہ پچھلے کئی برسوں سےکینسر جیسے موذی مرض سے جوجھ رہے تھے۔
اسّی کی دہائی تھی۔ ٹیلی ویژن گھروں میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت ریڈیو تفریح کا بنیادی ذریعہ تھا اور معمولی سا ٹیپ ریکارڈر گھروں کی شان ہوا کرتا تھا۔ کیسٹس کے اس دور میں پنکج اُدھاس کی آواز ہر گھر میں گونجا کرتی تھی۔ مخمل سی نرم آواز ، شائستہ انداز اور غزلوں کا انتخاب ایسا کہ آپ کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑ یں۔ آپ کے ساتھ لمبے وقت تک جڑ جائیں۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ خوب گنگنایا کرتے تھے پنکج ادھاس کو۔’’دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے؍ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے‘‘، چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال ,ایک تو ہی دھنوان گوری باقی سب کنگال ‘‘،’’یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے‘‘، ’’روشن چہرہ کالی زلفیں‘‘، ’’آپ جن کے قریب ہوتے ہیں؍ وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں‘‘ ،’’ اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ؍اک طرف ان کا گھر اک طرف میکدہ‘‘ ………. اس طرح کی نہ جانے کتنی غزلیں تھیں جو زبان زد خاص و عام ہو گئی تھیں۔
1986 میں ریلیز ہونے والے ان کے البم ’’آفرین‘‘ میں ایک طرف ’’جس دن سے جدا وہ ہم سے ہوئے؍اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا اور’’عشق نچائے جسکو یار ؍وہ پھر ناچے بیچ بازار‘‘ جیسی عشقیہ غزلیں تھیں تودوسری طرف ’’’ ہوئی مہنگی بہت ہی شراب؍تھوڑی پیا کرو‘‘ اور ’’پیمانے ٹوٹ گئے‘‘ جیسی غزلیں بھی تھیں۔یہ غزلیں محفلوں کی جان بن گئیں۔دیش کے کونے کونے میں یہ غزلیں گونجنے لگیں۔ شادیوں اور سالگرہ کی تقریبات میں بھی لاؤڈ اسپیکر پر پنکج ادھاس کی غزلیں بجا کرتی تھیں۔ایسا دوسرے غزل گائیکوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ پنکج ادھاس کے ساتھ شراب، پیمانہ، رند ، مے کدہ، مے خانہ پوری طرح سے جڑ گئے۔حالانکہ رندو اورمیکدے والی مقبول غزلوں کے علاوہ پنکج ادھاس نے اور بھی بہت کچھ گایا۔ ان کا ایک البم ہے’’ذکرِ میر‘‘، جس میں انھوں نے اردو کے بے مثال شاعر میر تقی میرؔ کے اشعار گائے ہیں۔1986 میں مہیش بھٹ کی فلم ’’نام‘‘ میں انھوں نے آنند بخشی کا لکھاایک دل کو چھو لینے والا گیت گایا’’چھٹی آئی ہے‘‘ ، موسیقار تھے لکشمی کانت پیارےلال تھے۔جب بھی ہندی سنیما کے طویل گانوں کی فہرست بنائی جائے گی، تقریباً آٹھ منٹ کا یہ گانا اس میں ضرور شامل ہوگا۔ اس گانے نے لوگوں کو بہت رلا یا ہے۔یہ گیت غیر مقیم بھارتیوں کے دلوں کی آواز ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے جذبات کی عکاسی بھی کرتا ہے، جن کے اہل خانہ بہتر زندگی کی تلاش میں سات سمندر پار چلے گئے ہیں۔
پنکج ادھاس ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’ غزل گائیکی کے تین پہلو ہوتے ہیں، شاعری، راگ اور گائیکی۔‘‘ انھوں نےہمیشہ اپنی غزلوں میں اس بات کا خیال رکھا کہ وہ لوگوں کی زبان پر چڑھیں۔ دھنیں ایسی ہوں، جن میں مقبولیت کے عناصر ہوں۔پنکج زندگی بھر اسٹیج پر گاتے رہے۔ غزل گائیکی کے سنہری دنوں سے لے کر جھما جھم سنگیت کے دور تک انہوں نے اپنے اسٹیج شوز کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے میوزک شوز پوری دنیا میں منعقد ہوتے تھے۔ ایک حیرت انگیز نظارہ ہو ا کرتا تھا ، لیکن ان کی اچانک رخصتی نے ایک عجیب خلا چھوڑ دیا ہے۔ پنکج اُدھاس آج بھلے ہی ہمارے درمیان نہیں ہیں ، لیکن ان کی غزلیں اور ان کے گیت ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
************************