بہار کے محکمہ تعلیم کے ذریعہ جاری کردہ ایک خط کو لے کر ریاست میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ریاست کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم و تعلم کے سلسلے میں جاری ٹائم ٹیبل کو لے کر حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں آمنے سامنے ہیں۔ دراصل، محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک نے صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک اسکول کھولنے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہاں ٹائم ٹیبل سرکاری اساتذہ کو سوٹ نہیں کر رہا ہے۔ چنانچہ اس کو لے کر اساتذہ تو ناراض ہیں ہی ان کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگان بھی حکومت کے اس رویے سے بے حد خفا ہیں۔ اسی خفگی کے نتیجے میں، بدھ کو بہار اسمبلی کے باہر اپوزیشن جماعتوں نے زبردست احتجاج کیا۔ وہیں بہار اسمبلی میں اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے نتیش کمار نے کہا تھا کہ کے کے پاٹھک سب سے ایماندار افسر ہیں۔ آپ لوگ (آر جے ڈی-کانگریس-بائیں بازو) انھیں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو کہ بالکل غلط ہے۔ اس دوران نتیش کمار تھوڑے برہم بھی نظر آئے۔ دراصل، ایک روز قبل یعنی منگل کو بہار کے محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا۔ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک کلاسز چلیں گی۔ ساتھ ہی صبح 9 سے 10 بجے اور شام 4 سے 5 بجے کے لئے الگ الگ شیڈول جاری کیا گیا ہے۔ اس کو لے کر تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے کے کے پاٹھک کے خلاف محاذ کھول دیا۔ آر جے ڈی کے سینئر لیڈر بھائی ویریندر نے محکمہ تعلیم کے حکم کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔ آر جے ڈی لیڈر کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سکریٹری کے کے پاٹھک وزیر اعلیٰ کے حکم کی بھی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔ وہیں بہار کے سابق وزیر تعلیم اور آر جے ڈی ایم ایل اے پروفیسر چندر شیکھر کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایوان میں جو کچھ بھی کہیں، افسران اسے نہیں مان رہے ہیں۔ منگل کو وزیر اعلیٰ نے ایوان میں کچھ اور کہا تھا، اور ان کے آفیسر کچھ اور احکامات جاری کر رہے ہیں۔” دریں اثنا محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک کے معاملے پر بہار کے وزیراعلیٰ اسمبلی میں برہم ہوگئے۔ اپوزیشن کے ایم ایل اے مسلسل کے کے پاٹھک کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس دوران اپوزیشن کے کچھ ایم ایل اے نے ایوان کے اندر نتیش کمار مردہ باد کے نعرے لگائے۔ اس معاملے پر سی ایم نتیش کافی ناراض ہوگئے۔ اپوزیشن ایم ایل اے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سی ایم نتیش نے کہا، “آپ مجھے ’مردآباد‘کہتے ہیں، ہم آپ کو ’زندہ باد‘ کہتے ہیں۔ مردآباد جتنی بار چاہیں استعمال کریں۔ ہم آپ سب کو زندہ رکھیں گے۔ زندہ رہو اور ہمیں مارتے رہو۔ جتنا مارتے رہو گے اتنا ہی آپ مرو گے۔ آپ لوگ اگلی بار بہت کم تعداد میں آئیں گے۔ ایک سیٹ بھی نہیں ملے گی۔ اس صورتحال کو جانیں۔ ” سی ایم نتیش کمار نے یہاں تک کہہ دیا کہ “یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے، گھر پر ہی رہیں۔ سارا کام حکومت کر رہی ہے۔ جو کچھ آپ لوگ کہہ رہے ہیں، ہم نے کل کہہ دیا تھا اور اس پر عمل بھی ہو گیا ہے۔ اب آپ کہہ رہے ہیں “افسر کو ہٹا دو، کیا آپ کو ایسا کرنے کا حق ہے؟” کسی سرکاری اہلکار کو ہٹانے کا مطالبہ غلط ہے۔ آپ ایک ایماندار آدمی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو سب سے زیادہ ایماندار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک افسر جو کسی کی بات نہیں سنتا ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کی بات ہو رہی ہے، یہ بہت غلط ہے۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن کے ایم ایل اے سے کہا کہ جتنا چاہیں ہنگامہ کریں، لیکن آپ کی ہنگامہ آرائی سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ وزیر اعلی کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی بھی حال میں محکمہ تعلیم کے اے سی ایس کے کے پاٹک کو نہیں ہٹائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست بہار کے محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک کے ڈیسک کی دراز اساتذہ کے لیے نت نئے آرڈر کی کاپیوں سے ہمیشہ بھری ہوئی رہتی ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ ان میں سے ایک کو نکال کر ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں۔ کے کے پاٹھک بعض اوقات اساتذہ کے اسکول آنے اور جانے کے وقت کے حوالے سے سخت قوانین بناتے ہیں اور بعض اوقات ان کی چھٹیوں پر قینچی چلا دیتے ہیں۔ طلبہ کی حاضری کا تناسب بڑھانے کے مقصد سے لیے اگر انرولمنٹ کینسل کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے تو تھوک انداز میں وہ طلبہ کا انرولمنٹ منسوخ کردیتے ہیں۔صرف یہی نہیں، انھوں نے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے، جو حکومت کے دائرے سے باہر ہیں۔ خصوصی اساتذہ کے طور پر مستقل سرکاری ملازمتوں کے لیے اہلیتی امتحان کے لیے بنائے گئے باہم متضاد اور متنازع ضوابط سے بھی اساتذہ ناراض ہیں۔ بہار پبلک سروس کمیشن سے منتخب اساتذہ کی مشکلات بھی کم نہیں ہو پا رہی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ بہار حکومت نے سرکاری ٹیچر بننے کے لیے ملازم اساتذہ کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ انھیں ابلیت کا امتحان پاس کرنا ہوگا۔ تین کوششوں میں امتحان پاس نہ کرنے والے اساتذہ کو ہٹا دیا جائے گا۔ جس سے اساتذہ ناراض ہیں اور کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ملازم اساتذہ کو احتجاج سے روکنے کے لیے کے کے پاٹھک کی جانب سے حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ جو اساتذہ یونین بازی کریں گے اور اسکول چھوڑ کر احتجاج میں حصہ لیں گے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم نے پہلے ہی تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط ارسال کر دیا ہے۔ کئی اساتذہ پر کاروائی بھی کی گئی ہے، اس کے باوجود اساتذہ احتجاج پر امادہ ہیں۔دوسری طرف بہار کے عوام میں یہ تاثر ہے کہ حکوت سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو سہولیات فراہم کر رہی ہے، اسی حساب سے ان سے کام طلب کیا جا رہا ہے۔ محکمہ تعلیم آہستہ آہستہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کسی بھی حالت میں سکول سسٹم سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ تاہم، کچھ اساتذہ کو یہ سختی ناگوار بھی لگ رہی ہے۔ ابھی تک اساتذہ بھی محکمہ جاتی پیچیدگیوں پر تبصرہ کرتے رہے ہیں۔ اساتذہ سوشل میڈیا پر کھل کر لکھتے تھے لیکن بعض اساتذہ کے خلاف کارروائی کے بعد اب دیگر اساتذہ کچھ بھی کہنے یا لکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ادھر محکمہ کا خیال ہے کہ سختی سے بہتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر کنہیا پرساد سریواستو نے تمام ڈی ای اوز کو ایک تازہ خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام اضلاع میں اسکول وقت پر کھلیں اور اساتذہ/بچے وقت پر اسکول پہنچیں، ضلع سے لے کر ریاستی سطح تک حکام کی طرف سے مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ مانیٹرنگ کا عمل بھی جاری ہے اور اس مانیٹرنگ/معائنہ سے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے اس موقف سے بہار کے عوام بھی متفق ہیں۔ ویسے اس معاملے میں حکومت کی سختی اور اساتذہ کرام کی ڈیوٹی میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ توازن قائم ہوگا تو نتائج مزید بہتر سامنے آئیں گے۔