پٹنہ کی ادبی فضا میرے لیے ہمیشہ پرکشش رہی ہے:فوزیہ رباب

 

پٹنہ28فروری۔۔۔روبن میموریل اسپتال اور شیتل ڈیولپرس کے استراک اور پی ایل ایف کے زیراہتمام 7مارچ کو پٹنہ واقع رویندر بھون ویر چند پٹیل پتھ میں منعقد ہونے والے خواتین مشاعرہ اور کوی سمیلن میں شاعرہ فوزیہ رباب کی شرکت یقینی ہے۔ شاعرہ فوزیہ رباب کا تعلق احمدآباد، گجرات کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ان کا آبائی وطن بجنور، اترپردیش ہے۔پی ایل ایف میڈیا نمائیندہ سے گفتگو میں شاعرہ فوزیہ رباب نے تفصیلی بات چیت کی انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر شاعرہ ہوں۔ان کا شعری مجموعہ” آنکھوں کے اس پار” کا اجرا ممتاز یونی ورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں 3 نومبر 2017 کو ایک باوقار جلسے میں ہوا ۔
 انہوں نے  ایک تعلیمی اور ادبی تنظیم “رباب فاؤنڈیشن” قائم کی ہے، جس کے تحت آن لائن اردو لرننگ، شاعری لرننگ ، غالب کلاسز ، عربی لرننگ اور اردو کلچر کلاسز چل رہی ہیں۔ان کلاسز سے امریکہ، یوروپ ، خلیجی ممالک اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے خاصی تعداد میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد مستفیض ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔آیندہ اردو کی اشاعت کے کئی اہم منصوبے بھی زیرِ غور ہیں۔انہوں نے کہا کہ علاوہ میری دلچسپی تنقیدی مضامین لکھنے میں بھی ہے۔انہوں نے بحیثیت مقالہ نگار مختلف قومی اور بین الاقوامی سیمناروں میں شرکت کی ہے اور ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شاعری میری فطرت میں شامل ہے۔مجھے یاد نہیں میں نے کب سے شعر کہنا شروع کیا۔لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ چھٹی جماعت سے ہی  ڈائری میں اپنی شعری اور نثری کاوشات رقم کرنے لگی تھی۔ کسی مخصوص واقعے کی نشان دہی میرے لیے مشکل ہے۔لیکن میں فطری مناظر کی خوب صورتی سے ہمیشہ متاثر رہی ہوں۔ یہی حسن میرے تخیل میں گھل کر لفظوں میں ڈھل جاتا ہے۔
انہوں نے  مشاعروں میں شرکت کے حوالے سے کہا کہ یوں تو ملک و بیرون ملک کے بہت سے شہروں میں بحیثیت شاعرہ شرکت ہوئی ہے۔لیکن پٹنہ پہلی بار آرہی ہوں۔عظیم آباد کا شمار اردو کے اہم دبستانوں میں ہوتا ہے۔یہ بیدل عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی، راسخ عظیم آبادی، کلیم عاجز، کلیم الدین احمد اور قاضی عبدالودود جیسے نابغوں کا شہر ہے۔یہاں مجھے مدعو کیاجانا میرے لیے باعثِ اعزاز ہے۔شاعرہ فوزیہ رباب کے چند اشعار
عشق بھی کرنا ہے گھر کے کام بھی
یہ مصیبت بھی نئی ہے ان دنوں
میری سانسوں میں ہے تری خوشبو
میری  مہندی  میں  توٗ ہی  رچتا ہے
استاد کے تعلق سے شاعرہ فوزیہ رباب کہتی ہیں کہ
فطرت میری استاذ ہے۔حیات و کائنات کے مطالعے اورمشاہدے نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔اردو، ہندی، انگریزی، فارسی، عربی اور پنجابی کلاسیکی اور جدید شعرا کے کلام سے میں نے خوب فیض حاصل کیا ہے۔اور شاعری بھی کیا، سچ تو یہ ہے کہ ایک تخلیق کار فکشن اور غیر فکشن سے لے کر فنونِ لطیفہ اور علوم و فنون کے نجانے کتنے سرچشموں سے سیراب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹنہ کی تاریخ و تہذیب اور یہاں کی ادبی فضا میرے لیے ہمیشہ پرکشش رہی ہے۔خدا بخش لائبریری مشرقی علوم و فنون کا مرکز ہے۔یہاں انے کو لیکرمجھے دلی اور روحانی مسرت محسوس ہو رہی ہے۔
 میں خود کو نہایت خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ مجھے ملک و بیرون ملک میں بے پناہ محبت ملی ہے۔مجھے نہایت باوقار مشاعروں میں دعوت دی جاتی ہے۔مجھے بطور خاص کئی بار قطر کے عالمی مشاعروں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔شاعرہ فوزیہ رباب نے کہا کہ پی ایل ایف کے بانی و سیکرٹری خورشیداحمدکا ممنون ومشکور ہوں جنہوں نے پٹنہ کےخواتین مشاعرہ میں مدعو کر کے اس ناچیز کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خورشید احمد صاحب سے گفتگو کر کے کافی اچھا لگا۔ خواتین مشاعرہ و کوی سمیلن کے لئے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔