’’انڈیا‘‘ کا دروازہ کھلا ہوا ہے

تاثیر،۱۴مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

  لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کے حکمت عملی ساز اب تک یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں بہار ر میں سیٹ شیئرنگ کا معاملہ طے کر لیا گیا ہے ۔ بس جے ڈی یو سربراہ اور بہار کے سی ایم نتیش کمار کے لندن سے آنے بھر کی دیر ہے،  ان کے آتے ہی سیٹ شیئرنگ  کے فارمولے کو فائنل ٹچ دے دیا جائے گا۔مگر حالات بتا رہے ہیں کہ ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہو سکا ہے۔ ابھی تک تو حتمی طور پر یہی طے نہیں ہوسکا ہے کہ کون کتنی سیٹوں پر الیکشن لڑے گا اور کون سی پارٹی کس لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑے گی۔ مسئلہ یہ بھی بنا ہوا ہے کہ این ڈی اے سے وابستہ چھوٹی پارٹیاں مثلاََ ہندوستانی عوام مورچہ اور راشٹریہ لوک مورچہ کے پاس کوئی سیٹنگ سیٹ بھی نہیں ہے۔ ایل جے پی کے پاس 6 سیٹیں تو ہیں مگر وہاں دو دو دعویدار ہیں۔
  راشٹریہ لوک مورچہ کے صدر اوپیندر کشواہا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ این ڈی اے میں سب اچھا ہے،  لیکن حقیقت ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان کے پاس لوک سبھا کی گرچہ کوئی سیٹ نہیں ہے ، لیکن ان کو تین سیٹیں کاراکاٹ، سیتامڑھی اور اجیار پور  چاہئے۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ کاراکاٹ اور سیتامڑھی جے ڈی یو کے کوٹے میں ہیں۔ اب اگر یہ سیٹ ان سے لی جاتی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدلے میں جے ڈی یو کو کون سی لوک سبھا سیٹیں دی جائیں گی؟ دوسری مشکل یہ ہے کہ اپیندر کشواہا تین سیٹوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈرنتیا نند رائے اجیار پور سے موجودہ ایم پی ہیں۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اجیار پو ر سیٹ اپیندر کشواہا کو   دے دی جائے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اوپیندر کشواہا بی جے پی ہائی کمان کے رابطے میں ہیں۔انھیں پوری امید ہے کہ بات بن جائے گی۔
اِدھر ہندوستانی عوام مورچہ کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی نے بی جے پی ہائی کمان سے صرف ایک سیٹ ’’گیا‘‘  کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر گیا لوک سبھا سیٹ جے ڈی یو کی سیٹنگ ہے۔ اب اگر یہ سیٹ جے ڈی یو سے لیکر ہندوستانی عوام مورچہ کو دی جاتی ہے تو ایک بار پھر وہی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اس کے بدلے میں کون سی سیٹ جے ڈی یو کو دی جائے گی۔ حالانکہ این ڈی اے میں اس بات کا چرچا ہے کہ جیتن مانجھی کو کسی ریاست کا گورنر بنا کر مطمئن کیا جا سکتا ہے، لیکن ابھی تک بات چرچا تک ہی محدود ہے۔
  ایل جے پی (آر) کے صدر چراغ پاسوان بذات خود این ڈی اے کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے 2019 کی لوک سبھا انتخابات میں جیتی گئی تمام سیٹوں پر اپنا دعویٰ ٹھوکا ہے۔ یہ دعویٰ بی جے پی حکمت عملی ساز وں کو کنفیوزڈ کرکے رکھ دیا ہے۔ یعنی پی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ نے بہت پہلے کہا تھا کہ نوادہ کی سیٹ پر بی جے پی چناؤ لڑنا چاہتی ہے۔ ایسے میں چراغ پاسوان نے نوادہ کے بجائے جہان آباد لوک سبھا کا مطالبہ کیا ہے۔ جہان آباد جے ڈی یو کی سیٹ ہے۔ اب جے ڈی یو اس سیٹ پر سے اپنا دعویٰ چھوڑتا ہے یا نہیں یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چراغ پاسوان نے حاجی پور سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔  مگر ابھی تک حاجی پور کے سیٹنگ ایم پی پشوپتی پارس نے اپنا دعویٰ برقرار رکھا ہے۔ یعنی این ڈی اے کے حکمت عملی ساز اس مخمصے کو حل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔بی جے پی کے لیڈر اس کوشش میں ہیں کہ چچا پشوپتی اور بھتیجہ چراغ پاسوان پارٹی کی سطح پر متحد ہو جائیں، لیکن سیاست کا گلیمر دونوں کو متحد نہیں ہونے دے رہا ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ پشو پتی پارس نے  صاف صاف کہہ دیا کہ اب اتحاد کاا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ٹیم، پارٹی اور خاندان، سب کچھ ٹوٹ گیا ہے۔اب دل کا جڑ نا ممکن نہیں ہے۔دوسری جانب مکیش ساہنی بھی این ڈی اے کے لیے ایک بڑا فیکٹر ہیں۔ کچھ دن پہلے مکیش ساہنی نے یہ کہہ کر این ڈی اے کے دل کی دھڑکن بڑھا دی تھی کہ وہ اکیلے سیٹ جیتیں یا نہ جیتیں، لیکن کھیل تو خراب کر ہی سکتے ہیں۔حالانکہ بی جے پی کے حکمت عملی ساز ا نھیں ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں۔چنانچہ انھیں بھی ایک سیٹ دے کر مطمئن کرنے کی بات زیر غور ہے، لیکن مکیش ساہنی ایک سے زیادہ سیٹیں چاہتے ہیں۔ بی جے پی کے حکمت عملی ساز کے لئے یہ مسئلہ بھی کوئی کم پیچیدہ نہیں ہے۔
پہلے بی جے پی کا دعویٰ تھا آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کل 40 میں سے 40 سیٹوں پر این ڈی اے کا جھنڈا گاڑ دینے کے لئے   بہار کی انتخابی بساط پر چناوی منصوبہ بند ی کر لی گئی ہے۔ سیٹ شیئرنگ کا فارمولہ بھی طے ہے۔ بس جے ڈی یو سربراہ نتیش کمارکا انتظار ہے۔وہ جیسے ہی لندن سے پٹنہ لوٹیں گے، سیٹ شیئرنگ کےفارمولے کو آخری شکل دے دی جائے گی۔اب جب کہ نتیش کمار بیرون ملک سے واپس پٹنہ آ چکے ہیں۔امید کی جا رہی ہے کہ وہ سیٹ شیئرنگ کی پیچیدگیوں کو دور کرتے ہوئے یہ پیغام دیں گے کہ یہاں سب ٹھیک ہے۔ویسے سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اوپیندر کشواہا کاراکاٹ سے اور جیتن رام مانجھی گیا لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑیں گے۔  جہاں تک ایل جے پی کے دونوں گروپ کے درمیان سیٹوں کا تنازعہ ہے تو اس کو حل کرنے کے لئے بی جے پی کے پاس یہی ایک تدبیر ہے کہ حاجی پور سےچراغ پاسوان کا راستہ ہموار کیا جائے اور چچا پشوپتی پار س کو سمستی پور لوک سبھا سے الیکشن لڑنے کے لئے منایا جائے۔ اگرپشوپتی پار س نہیں مانیں گے تو متبادل کے طور پر انھیں بھی جیتن رام مانجھی کی طرح کسی ریاست کا گورنر بنادیا جا سکتا ہے۔اب چاہے جو صورت ہو بی جے پی کسی بھی حال میں چراغ پاسوان کو نہیں کھونا چاہتی ہے۔بی جے پی اعلیٰ کمان کو معلوم ہے کہ بہار کی 40 میں سے   40  سیٹوں  پرفتح کا پرچم لہرانے کے لئے چراغ پاسوان کو مطمٔن کرنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کا دروازہ ان کے لئے پہلے سے کھلا ہوا ہے۔
************************