این ڈی اے کا مستقبل روشن ہے

تاثیر،۲۹مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار میںزبردست رسہ کشی اور طویل جدوجہد کے بعد کل 29 مارچ کو ’’انڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ جماعتوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کو حتمی شکل دے دی گئی۔ اس سیٹ شیئرنگ میں آر جے ڈی نے پاٹلی پترا سمیت 26 سیٹیں اپنے پاس رکھی ہیں، جبکہ پٹنہ صاحب سمیت 9 سیٹیں کانگریس کو دی گئی ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں میں پانچ سیٹیں تقسیم کی گئی ہیں۔سیٹ شیئرنگ کا اعلان آر جے ڈی کے راجیہ سبھا ایم پی منوج جھا اور بہار کانگریس کے صدر اکھلیش سنگھ نے مشترکہ طور پر کیا ۔اعلان کے مطابق آر جے ڈی نےگیا، نوادہ، جہان آباد، اورنگ آباد، بکسر، پاٹلی پترا، مونگیر، جموئی، بانکا، والمیکی نگر، مشرقی چمپارن، شیوہر، سیتامڑھی، ویشالی، سارن، سیوان، گوپال گنج، اجیار پور، دربھنگہ، مدھوبنی، جھنجھارپور، سپول، مدھے پورہ ،پورنیہ ،ارریہ اور حاجی پور کو اپنے پاس رکھ لیا ہے، جبکہ کانگریس کے لئے کشن گنج، کٹیہار، بھاگلپور، مظفر پور، سمستی پور، مغربی چمپارن، پٹنہ صاحب، سہسرام، مہاراج گنج اور بائیں بازو کی سی پی ایم کے لئے کھگڑیا، سی پی آئی کے لئےبیگوسرائے اور سی پی ایم ایل کے لئے آرا،کاراکاٹ اور نالندہ کو چھوڑا گیا ہے۔

کہنے کے لئے تو کہا ہی جا رہا ہے کہ بہار میں ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا کام اطمینان بخش ڈھنگ سے مکمل ہو گیا ہے ، لیکن حقیقت میں بات کچھ اور ہی ہے۔جن دنوں اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کے سلسلے میں اپوزیشن لیڈر آپس میں مل جل رہے تھے، اس وقت لوگوں میں کافی جوش و خروش تھا۔ سب ہی کہہ رہے تھےاتحاد ی جماعتیں اپنے مفاد میں نہیں بلکہ ملک کے آئین اور اس سیکولر کردار کے مفاد میں متحد ہو رہی ہیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، متعلقہ پارٹیوں پر ان کا مفاد حاوی ہوتا چلا گیا۔ بہار کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی یو سربراہ نتیش کمار کا ’’انڈیا‘‘ کو چھوڑ کر ’’این ڈی اے‘‘ میں چلے جانے کا بھی سبب پارٹیوں کا یہی رویہ رہا۔اب جبکہ بہار کے ’’انڈیا ‘‘ اتحاد میں شامل پارٹیوں کی تعداد محدود ہے، اس کے باوجود اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی آر جے ڈی کی مفاد پرستی میں کمی نہیں آ رہی ہے۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ چونکہ بہار میں کانگریس کا نیٹ ورک مضبوط نہیں ہے، اسی کا فائدہ آر جے ڈی اٹھا رہا ہے۔الزام ہے کہ سیٹوں کی تقسیم میں وہی ہوا ہے، جو آر جے ڈی کے لیڈروں نے چاہا ہے۔ تقریباََ تمام من پسند سیٹیں آر جے ڈی نے خود لے لی ہیں اور بیشتر کمزور سیٹیں کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے حوالے کر دی ہیں۔آر جے ڈی کے اس رویہ سے کانگریس کے لیڈر بالکل مطمٔن نہیں ہیں۔کچھ لوگوں کا تو صاف طور پر یہی ماننا ہے کہ آر جے ڈی بہار میں کانگریس کو جان بوجھ کر مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔حالانکہ کانگریس کے کسی بڑے لیڈر کی زبان سے ابھی تک کسی طرح کا کوئی شکوہ گلہ سامنے نہیں آ یا ہے۔

ہاں، ’’انڈیا ‘‘ اتحاد کے درمیان سیٹ شیئرنگ کے اعلان کے بعد کانگریس لیڈر اور سابق ایم پی راجیش رنجن عرف پپو یادو نے کل ایک پریس کانفرنس ضرور کی تھی، جس میں انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ عوام نے کانگریس پارٹی کا جھنڈا میرے ہاتھ میں دیا ہے۔ہم بہار میں کانگریس کی مرکزی قیادت کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔ ہماری مرکزی قیادت نے گرینڈ الائنس کو مضبوط رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں جس کے ساتھ ہوں اسی کے ساتھ پورنیہ کے لوگوں کے درمیان جاؤں گا۔ نیشن فرسٹ کا نعرہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے لئے ملک سب سے پہلے ہے اور اس کے بعد پارٹی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے رہنما راہل گاندھی کے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کا مقصد نریندر مودی کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ اس مہم میں ہمارا تعاون جاری رہے گا۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ میری قرارداد عوام کے جذبات کے ساتھ کھڑے ہونے اور راہل گاندھی کو اس ملک کا وزیر اعظم بنانے کا ہے۔ سیمانچل کے لوگ کانگریس کے جھنڈے سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے میرا مقصد یہاں کانگریس کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتیجے میں 4 جون کو عوامی جذبات کے مطابق پورنیہ لوک سبھا پارلیمانی حلقہ سے صرف کانگریس کا جھنڈا لہرایا جائے گا۔واضح ہو کہ یہ پریس کانفرنس پورنیہ سے پپو یاد کی امیدواری پر آر جے ڈی کے ذریعہ گرہن لگائے جانے کے تناظر میں منعقد کی گئی تھی۔

واضح ہو کہ آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو نے جے ڈی یو کو جھٹکا دیتے ہوئے پورنیہ سے آئی بیما بھارتی کو لوک سبھا کا ٹکٹ دیا۔ اس کے بعد پپو یادو کی مایوسی عوام سے لے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک پھیل گئی ہے۔ تاہم وہ اب بھی اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔پپو یادو کا بالواسطہ طور پر یہ الزام ہے کہ لالو یادو نے جان بوجھ کر ان کےپورنیہ منصوبے میں گڑبڑ کی ہے۔ سیاسی گلیارے میں بھی یہی چرچا ہے کہ لالو پرساد یادو پپو یادو ایک ذرہ بھر بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ پپو یادو کہیں سے بھی الیکشن جیتیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف لالو یادو کی خواہش کی وجہ سے ہی ایسا ممکن ہوا ہے؟ کہنے والے تو یہاں تل کہہ رہے ہیں کہ اس کھیل میں اور بھی لوگ شامل ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو یہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ پپو یادو بہار میں عظیم اتحاد کا حصہ بنیں۔ لیکن یہ ممکن ہو گیا۔ اس کے بعد پپو یادو کو ڈسٹرب کرنے کا کام شرورع ہو گیا ہے۔ بہر حال بہار کے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی اندرونی حالت سے ایسا لگ رہا ہے کہ بہار میں ’’این ڈی اے ‘‘ کا مستقبل روشن ہے۔
****