!تو ڈال ڈال تو ہم پات پات

تاثیر،۲۷مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

انتخابی بساط بچھ گئی ہے۔ حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن کیمپ، وہ اپنے اپنے طریقے سے فتح یابی کی حکمت عملی مرتب کرنےمیں مصروف ہیں۔ ایسے میں پوری دنیاکی نظریں بی جے پی کی سرگرمیوں پر مرکوز ہیں۔ پارٹی قیادت نے اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں اپنے لیے 370 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے۔ جبکہ بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد کے لیے 400  سیٹوںکا نشانہ ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ پی ایم نریندر مودی کی مقبولیت اورساکھ کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پارٹی قیادت کو پوری امید ہے کہ وہ اس بار کی انتخابی جنگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے گی ۔ اس کے لیے اعلیٰ کمان ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھا رہی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں پارٹی بدلنے والوں کو امیدوار بنانا ہو یا مخالفین کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی مرتب کرنی ہو، پارٹی مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ دہلی کے سی ایم اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال کے خلاف ای ڈی نے جس طرح سے کارروائی کی ہے، اس سلسلے میں کئی طرح کے چرچے ہو رہےہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کارروائی سے دہلی کے عوام میںعام آدمی پارٹی اور کانگریس کے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم، بی جے پی کی قیادت اس کی پروا کئے بغیر کیجریوال کے معاملے پر مسلسل جارحانہ رویہ اپنا رہی ہے۔ایسا صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ بی جے پی نگاہ ابھی صرف اورصرف جیت پر مرکوز ہے۔
  لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ 19 اپریل کو ہے۔ اگر اب تک کی تیاریوں پر نظر ڈالی جائے تو پی ایم نریندر مودی اور بی جے پی اس انتخابی جنگ میں اپنے سیاسی حریفوں سے بہت آگے نظر آ رہے ہیں۔ منصوبہ بندی کا سوال ہو یا امیدواروں کے ناموں کے اعلان کا، پارٹی اور حکومت انتخابی بساط پر اپنا ایک ایک مہرہ بڑی تیزی اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال پچھلے  اتوار کو اس وقت سامنے آئی تھی جب بی جے پی نے امیدواروں کی پانچویں فہرست جاری کی تھی۔ اس فہرست میں دیگر جماعتوں کے تین رہنماؤں کو آناََ فاناََٹکٹ دیا گیا ۔ ٹکٹ حاصل کرنے والے چند گھنٹے پہلے ہی بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ اس فہرست میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ اور صنعت کار نوین جندل کا نام نمایاں ہے۔ 78 سالہ رنجیت سنگھ چوٹالہ سابق نائب وزیر اعظم دیوی لال کے بیٹے ہیں۔ دونوں رہنما ہریانہ سے ہیں، جنہیں بی جے پی نے لوک سبھا کا ٹکٹ دیا ہے۔ ان کے علاوہ وی پرساد راؤ، جو وائی ایس آر سی پی کے ایم ایل اے اور آندھرا پردیش سے سابق ایم پی رہ چکے ہیں، کو بھی پارٹی نے بغیر کسی تاخیر کے امیدوار  بنا دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی اعلیٰ کمان نے دیگر پارٹیوں سے آئے  ان لیڈروں کو ٹکٹ دینے سے پہلے تفصیلی سروے اور فیڈ بیک لیا۔ اس کے بعد، انہوں نے ریاستی اکائیوں کی طرف سے تجویز کردہ پارٹی رہنماؤں کے ناموں کو مسترد کر دیا اور دیگر جماعتوں کے چہروں پر اعتماد کا اظہار کیا۔اس طرح بی جے پی کے حکمت عملی ساز نہ صرف ٹکٹوں کی تقسیم میں پوری منصوبہ بندی کر رہے ہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیوں پر بھی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اسی لئے جب دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی ٹیم نے 21 مارچ کو گرفتار کیا تو بی جے پی نے پوری طاقت کے ساتھ نہ صرف اس کارروائی کی حمایت کی بلکہ دہلی کے عوام کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام شہریوں کو یہ بتایا کہ یہ کارروائی دہلی ایکسائز پالیسی سے متعلق منی لانڈرنگ کیس سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کارروائی کے خلاف عام آدمی پارٹی کی جانب سے مظاہرے بھی کئے گئے ، لیکن بی جے پی لیڈر اور کارکن بھی احتجاج میں ان سے پیچھے نہیں رہے۔ دہلی بی جے پی کے سربراہ وریندر سچدیوا نے سی ایم اروند کیجریوال پر سخت الفاظ میں حملہ کیا۔ انھیں کرپٹ اور بے ایمان بتاتے ہوئے کہاکہ اروند کیجریوال نے دہلی کو لوٹا ہے، اس لئے انہیں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
اِدھرلوک سبھا انتخابات سے عین قبل دہلی کےاروند کیجریوال کے خلاف اس طرح کی کارروائی کو لے کر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ شاید اس وجہ سے بی جے پی کو نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔عام آدمی پارٹی اور کانگریس دونوں پارٹیاں دہلی میں ایک ساتھ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ سیاست کے ماہرین اروند کیجریوال کے خلاف ای ڈی کی کارروائی کے وقت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی قیادت اس سے آگے کی سوچ رہی ہے۔ پارٹی کا موقف ہے کہ ای ڈی نے اروند کیجریوال کو کئی بار طلب کیا تھا۔ وہ تفتیشی ایجنسی کے سامنے پیش نہیں ہو رہے تھے۔ ایسے میں ای ڈی ٹیم نے ضروری ثبوت کے بعد ہی یہ کارروائی کی ہے۔ یہی نہیں، بی جے پی قیادت جانتی ہے کہ اس معاملے پر اپوزیشن محاذ متحد ہو کر آگے آئے گا۔ تاہم پارٹی کو یہ بھی امید ہے کہ اس کا کوئی خاص سیاسی اثر نہیں پڑے گا۔
اس کے علاوہ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل محکمہ انکم ٹیکس نے گزشتہ ماہ کانگریس کے خلاف زیر التوا ایک کیس میں کارروائی کرتے ہوئے پارٹی کے بینک کھاتوں کو منجمد کر دیا تھا۔ کانگریس نے اس معاملے پر پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی سے اس کی انتخابی مہم کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اس کے لئے کانگریس نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کارروائی مرکزی حکومت کی حکمت عملی کے تحت کی گئی ہے تاکہ انتخابات کو اپنے حق میں متاثر کیا جا سکے۔ حالانکہ بی جے پی نے اس سے اپنا پلّا جھاڑ تے ہوئے خود کو الگ کرلیا اور کہہ دیا کہ یہ محکمہ انکم ٹیکس اور کانگریس کا معاملہ ہے۔
اس بیچ جاری انتخابی جنگ کے دوران سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکٹورل بانڈز کا ڈیٹا بھی سامنے آگیا ہے۔ اس میں فریقین کی جانب سے خریدے گئے انتخابی بانڈز کے بارے میں معلومات شیئر کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے الیکشن کمیشن کو مکمل معلوما ت فراہم کرا د یں۔ پھر انھیں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شیئر کیا گیا۔ یہ انکشاف ہوا کہ انتخابی بانڈز کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ملاہے۔ فی الحال، جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات 2024 قریب آرہے ہیں، اس طرح کے نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں، جن پر اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم مرکز میں برسراقتدار پارٹی مسلسل اپنے ہدف نظر ٹکائے ہوئے ہے۔ پارٹی ہر معاملے پر پوری طاقت کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہی ہےاور اپوزیشن سے سبقت لے جانے میں ہمیشہ آگے نظر آ رہی ہے اور یہی بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی بھی ہےیعنی’’ تو ڈال ڈال تو ہم پات پات !‘‘
********************