روزہ اور جنازے: مغربی کنارے میں ماہِ رمضان پر ظلم و تشدد کا سایہ

تاثیر،۲۲مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

غزہ،22مارچ:جبکہ بڑھتے ہوئے تشدد نے مسلمانوں کے ماہِ صیام پر ایک طویل سایہ کر ڈالا ہے تو ہسپتال کے ڈائریکٹر وسام بکر نے کہا کہ عموماً رمضان کی راتیں اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے میں شدید خطرے سے دوچار ہو گئی ہیں۔شمال مغربی کنارے کے شہر جنین میں واقع ان کا ہسپتال صفِ اول کے مقامات میں سے ہے جو اس تشدد کے نشانے پر ہیں جو سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے بے مثال حملے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں تاحال جاری ہے۔
بکر نے کہا، “روزانہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ روزہ کھولنے کے بجائے “ہم رات کو باہر نہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ کیونکہ رات کا وقت محفوظ نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا، اسرائیلی افواج کی طرف سے “کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔جیسا کہ اسرائیل غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے لیے اپنی تباہ کن فوجی مہم جاری رکھے ہوئے ہے تو مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج یا آباد کاروں کا تشدد – جو جنگ سے پہلے ہی بڑھ رہا تھا – دو عشروں میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ڈائریکٹر بکر نے کہا، سات اکتوبر سے جنین کے سرکاری ہسپتال میں اسرائیلی چھاپوں میں 44 ہلاک شدہ اور 264 زخمی افراد لائے گئے ہیں۔متواتر فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان کے علاوہ فلسطینی مسلح گروپوں کے گڑھ جنین کے رہائشیوں نے کہا کہ تشدد سے سڑکیں خاموش اور ویران، خوشی ختم اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔
محمد عمر نے کہا، سڑکوں پر “کوئی لوگ نہیں ہیں۔” عمر ایک مٹھائی فروش ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی جینین پناہ گزین کیمپ میں گذاری ہے جو مغربی کنارے کے سب سے زیادہ پرہجوم اور غربت زدہ علاقوں میں سے ایک اور بکثرت اسرائیلی چھاپوں کی جگہ ہے۔عمر کے مطابق اس سال کے رمضان کا شدید ماحول نہ صرف چھاپوں اور حملوں کے فوراً بعد بلکہ نسبتاً پرسکون دنوں میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا، “بمباری سے خوفزدہ لوگ اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
حتیٰ کہ اگر انہوں نے ایسا کیا بھی تو انہیں ارد گرد کے علاقوں میں جانے میں کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کئی گلیوں کو نقصان پہنچا ہے اور اسرائیلی بلڈوزر کی مسماری کے بعد کچھ ناقابلِ رسائی ہو گئی ہیں۔اسرائیل معمول کے مطابق ان فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتا ہے جن پر حملوں کا الزام ہے۔ وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات (دہشت گردی سے) باز رکھنے کا کام کرتے ہیں جبکہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ پالیسی اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔بکر نے کہا تشدد اور خوف نے ہسپتال کے عملے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رمضان (کی سرگرمیوں) کو بہت زیادہ مخصوص اور محدور کر دیا ہے۔لاشوں کے اکثر رات کو پہنچنے اور طبی ماہرین کی ہنگامی ضرورت کے پیشِ نظر ان کا کام کافی دباؤ والا ہوتا ہے۔بکر نے کہا، روزانہ غروبِ آفتاب کے وقت افطار کے بعد گھر پہنچنے کے لیے “آج کل میں جلدی کرتا ہوں کیونکہ میں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے بچوں کے لیے بھی ڈرتا ہوں۔”
گذشتہ ہفتے اسرائیلی افواج نے ہسپتال کے اندر دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا جسے انہوں نے “مسلح مشتبہ افراد” کے خلاف “انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی” قرار دیا۔