کھلے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت

تاثیر،۲۲مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کل ( 22مارچ)کو سنائے گئے اپنے ایک اہم فیصلہ میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئےاسے منسوخ کر دیا ہے۔ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ سیکولرازم کے اصولوں کے منافی ہے۔اس فیصلہ اور تبصرہ کے ساتھ ہی یوپی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی آگے کی پڑھائی کے لیے ایک منصوبہ بنائے اور انہیں مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام سے جوڑے۔ یہ فیصلہ انشومن سنگھ راٹھور اور دیگر کے ذریعہ یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 اور اس کے اختیارات کو چیلنج کرنے والی ایک عرضداشت کی سماعت کے بعد آیا ہے۔ عرضداشت میں حکومت ہند، ریاستی حکومت اور محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے مدارس کے انتظام اور ان کو دی جانے والی امداد پر اعتراضات کئے گئے تھے۔ اس پر سماعت کے بعد جسٹس ویویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ کے ذریعہ یہ فیصلہ سنایاگیا ۔ اس فیصلے کے تناظر میں ، قانون کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اب تمام امداد یافتہ مدارس کو ملنے والی گرانٹ بند ہو جائے گی اور حکومت کی امداد پر چلنے والے مدارس ختم ہو جائیں گے۔کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے مدارس میں مذہبی تعلیم دی جا رہی تھی۔ عدالت کے ذریعہ اسے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے متصادم قرار دیتے ہوئے مدرسوں کی امداد سے متعلق قانون کو رد کر دیا گیا ہے۔

کورٹ کے اس فیصلے سے قبل یوگی حکومت نے ریاست میں چل رہے مدارس کا سروے کرایا تھا۔سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ریاست میں 16513 تسلیم شدہ مدارس ہیں۔ان کے علاوہ ساڑھے آٹھ ہزار غیر تسلیم شدہ مدارس بھی چل رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ الزامات لگائے گئے کہ ان مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ ملتی ہے، جس کا وہ غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اس معاملے کی جانچ کے لئے اکتوبر 2023 میں ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ ایس آئی ٹی نے اپنی جانچ کے بعد یوگی حکومت سے تقریباً 13 ہزار مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی۔ جانچ میں غیر قانونی پائے جانے والے زیادہ تر مدارس نیپال کی سرحد پر واقع ہیں۔ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ مدارس گزشتہ دو دہائیوں میں خلیجی ممالک سے ملنے والی رقم سے بنائے گئے ہیں۔ رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ جب ان مدارس سے ان کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات مانگی گئیں تو وہ انہیں فراہم نہیں کر سکے۔ چنانچہ یہ خدشہ لاحق ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جمع کی گئی رقم کو حوالہ کے ذریعے مدرسوں کی تعمیر کے لیے بھیجا گیا۔ زیادہ تر مدارس نے اپنے جواب میں چندے کی رقم سے مدرسے کی تعمیر کا دعویٰ کیا مگر چندہ دینے والوں کے نام نہیں بتا سکے۔

قابل ذکر ہے کہ یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 ایک قانون تھا، جسے حکومت اتر پردیش نے ریاست میں مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت بورڈ سے شناخت حاصل کرنے کے لئےخاطر خواہ بہتر معیارات پر پورا اتر رہے تھے۔ بورڈ نے مدارس کو نصاب، تدریسی مواد اور اساتذہ کی تربیت کے لیے رہنما اصول بھی فراہم کئے تھے،جس پر سرکاری مالی امداد پر چلنے والے یہ مدارس کھرا اتر رہے تھے۔عدالت کے فیصلے پر یوپی مدرسہ بورڈ کی رجسٹرار پرینکا اوستھی کا کہنا ہے کہ ابھی حتمی فیصلے کا انتظار ہے۔ حتمی فیصلہ آنے کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی اوراس کے مطابق آگے کی کارروائی پر غور کیا جائے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ یو پی میں560ریاستی حکومت سے امداد یافتہ مدراس ہیں اور 121 منی آئی ٹی آئی چل رہے ہیں ۔امداد یافتہ دینی مدارس میں اس وقت 9514 ؍ اساتذہ اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ امداد یافتہ دینی مدارس کے علاوہ یو پی مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ دینی مدارس کی کل تعداد 19213 ہے ۔تسلیم شدہ دینی مدارس ریاست کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ برسوں پہلے اپنے قیام کے وقت سے ہی ’’عربی فارسی بورڈ‘‘ ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم کے ماتحت کام کرتا رہا ہے، لیکن 1994 میں عربی فارسی بورڈ کو محکمہ تعلیم سے الگ کرکے اس کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ماتحت کر دیا گیا ۔ اس طرح ایک صدی پرانے ’’عربی فارسی بورڈ‘‘ کی اہمیت قدرے مجروح ہو گئی ۔ 14؍ دسمبر2007 کو ریاستی حکومت نے ’’عربی فارسی بورڈ ‘‘کا نام بدل کر یو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ تے ہوئے اس کا صدر مقام الہ آباد سے لکھنؤ منتقل کر دیا گیا۔سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے مدارس کو یوپی مدرسہ بورڈ سے ’’مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 ‘‘ کے تحت منظوری حاصل کرنی ہوتی تھی۔
دراصل یہ خدشہ پہلے سے ہی لاحق تھا کہ یوپی میں حکومت سے امداد یافتہ دینی مدارس ختم کر دئیے جائیں گے۔اس طرح کا اندیشہ اہل مدارس اور میڈیا سے وابستہ افراد کے درمیان موضوع بحث تھا۔ ایسی بات اس لئے بھی چرچا میں تھی کیونکہ آسام میں امداد یافتہ دینی مدارس کو جس باریکی اس جس بہانے سے ختم کیا گیا ، اس کے آثار اتر پردیش میں بھی نظر آنے لگے تھے۔ دینی مدارس کے ذمہ داران کا خیال تھا کہ اگر آسام کا فارمولہ یو پی میں بھی آزمایا گیا تو یو پی مدرسہ بورڈ کا خاتمہ ہو جائے گا اور اب وہی ہو بھی رہا ہے۔بس فرق یہ ہے کہ آسام میں وہاں کی حکومت نے ایسا کیا تھا اور یوپی میں کورٹ کی مدد سے ایسا کیا جا رہا ہے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آسام میں 1281 مدارس ’مڈل انگلش اسکولز‘ میں تبدیل کر دیئے گئےہیں۔ آسام حکومت کی کابینہ نے 13نومبر، 2020کو منعقد ایک میٹنگ میں اس امر کا فیصلہ لیا تھا۔ کابینہ کے اس فیصلے کے دوران وزیرِ اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔اس کے بعد 2021 میں مدارس کی تعلیم سے متعلق دو ایکٹ کو ختم کر دیا گیا اور ساتھ ہی ایک قانون بنا کر تمام سرکاری اور صوبائی مدارس کو بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ایکشن کے فارمٹ میں تھوڑے فرق کے ساتھ یوپی ابھی آسام کے ہی نقش قدم پر چل رہاہے، جو جمہوری اقدار کے موافق قطعی نہیں ہے۔ویسے یہ حقیقت ہے کہ درخواست گزار مکمل تیاری کے ساتھ کورٹ پہنچے ہوئے ہیں اور ان کی پشت پناہی مدارس اسلامیہ مخالف طاقتیں کر رہی ہیں۔ مدرسہ کے تعلیمی نظام مثلاََنصاب تعلیم اور کوالٹی آف ایجوکیشن وغیرہ ڈھیروں سارے موضوعات پر بحث چل رہی ہے، لیکن یہ سوال کافی اہم مانا جا رہا ہے کہ ’’کیا ریاستی تعلیمی بورڈ اسکولوں میں مذہبی تعلیم کی اجازت دے سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کیا ہو سکتا ہے، اس پر کھلے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
****************