!’گھر کو لگے نہ آگ کہیں گھر کے چراغ سے‘

 

بہار میں لوک سبھا انتخابات کے لیے میدان تیار ہو گیا ہے۔ این ڈی اے نے اپنے سبھی کھلاڑیوں کے نام کا اعلان کرتے ہوئے ان کی جگہ بھی متعین کر دی ہے۔ جمعہ کو ’’انڈیا‘‘ اتحاد نے بھی سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کرکے بتا دیا کہ اِدھر بھی مقابلےکے لیے کمر کس لی گئی ہے۔ دونوں اتحادوں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے نام کا فیصلہ کرتے ہوئے سیٹ شیئرنگ پر بھی مہر لگا دی ہے۔ آپس میں سیٹوں کا بھی فیصلہ کر لیا ہے، لیکن ابھی تک سابق وزیر مکیش ساہنی کی پارٹی وکاسیل انسان پارٹی (وی آئی پی) اور راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی (آر ایل جے پی)کو کہیں جگہ نہیں ملی ہے۔ این ڈی اے اتحاد بی جے پی، جے ڈی یو، ایل جے پی (رام ولاس)، ہندوستانی عوام مورچہ (ایچ اے ایم) اور راشٹریہ لوک مورچہ پر مشتمل ہے، جب کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وی آئی پی لیڈر مکیش ساہنی نے نشادوں کے لئے ریزرویشن کے مطالبے کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کی شرط رکھی تھی، لیکن دونوں اتحادوں نے ان کی پیش کش کو مسترد کر دیا۔ مکیش سہنی این ڈی اے اور ’’انڈیا‘‘ دونوں کے رابطے میں تھے۔ مقصد تھا کہ کہیں سے بھی بات بن جائے، لیکن انھوں نے جیسا سوچا تھا، ویسا نہیں ہو سکا۔اس طرح مکیش سہنی کی سیاست کی کشتی ابھی تک منجدھار میں ہی ہے۔
  سابق مرکزی وزیر پشوپتی کمار پارس کی پارٹی آر ایل جے پی کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ سال 2019 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں، ایل جے پی نے چھ سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا اور اس کے امیدوار نے تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایل جے پی کے بانی رام ولاس پاسوان کے انتقال کے بعد ایل جے پی دو گروپ میں منقسم ہو گئی۔  پشوپتی پارس نے ایک گروپ کی قیادت شروع کی جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت چراغ پاسوان سنبھالتے رہے۔ لوک سبھا انتخابات 2024  کے لئے این ڈی اے کے درمیان ہوئی سیٹوں کی تقسیم میں چراغ پاسوان کی ایل جے پی کو پانچ سیٹیں ملیں گئیں، لیکن پشوپتی پارس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ اس کے بعد پشوپتی پار س نے  وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ سیاسی مبصرین مانتے ہیں کہ سیٹوں کی تقسیم میں بی جے پی پشوپتی پارس کے ساتھ کھیلا کیا ہے۔جب  پشو پتی پارس کے ساتھ ایل جے پی کے چار ایم پی تھے، تو ان کو مرکز میں وزیر بناکر رکھا گیا اور جیسے ہی چناؤ کا موسم آیاپورا کا پورا ’’آشیرواد‘‘ چراغ پاسوان کو دے دیا گیا۔ اب پشوپتی پارس کاسیاسی مستقبل ان کے بھتیجے چراغ پاسوان کے ہاتھوں میں ہے۔پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ پارس کو ’ ’انڈیا‘‘ اتحاد میں جگہ مل جائے گی ، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
اِدھربہار کی ہی پورنیہ لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑنے کی امید میں، اپنی ’’جن ادھیکار پارٹی‘‘  کو کانگریس میں ضم کر دینے والے سابق ایم پی راجیش رنجن عرف پپو یادو نے جمعہ کو یہ سیٹ اتحادی آر جے ڈی کے پاس چلے جانے کے بعد ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے باغی امیدوار کے طور پر لڑنے کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ پپو یادو کی بیوی رنجیت رنجن کانگریس سے راجیہ سبھا کی رکن ہیں۔ پارٹی کے ساتھ اپنی مکمل وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کئی حلقوں میں ’’انڈیا‘‘اتحاد کی اتحادی جماعتوں کے درمیان دوستانہ لڑائی کا اشارہ دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ میں راہل گاندھی کو ملک کا وزیر اعظم بنانے اور بہار میں کانگریس کے احیاء میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔سابق ایم پی کا دعوی ٰ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے انہیں پورنیہ سے ٹکٹ دینے کا یقین دلایا تھا۔موجودہ تناظر میں کئے گئے ایک سوال ’’ کیا وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے ؟‘‘ کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ’’ میں نے اپنے ہاتھوں میں کانگریس کا جھنڈا پکڑا ہوا ہے، میں اسے اپنی آخری سانس تک نہیں جانے دوں گا۔ میں پورنیہ میں کانگریس کو مضبوط کرنے کا کام کروں گا اور جب 26 اپریل کو ووٹنگ ہوگی تو اس کا اثر سب کو نظر آئے گا۔‘‘پپو یادو کی دلیل ہے کہ’’انڈیا‘‘ اتحاد سے وابستہ تمام اتحادی جماعتیں ایک مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔ کئی جگہوں پر انہیں باہم لڑتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ وایناڈ (کیرالہ) میں راہل گاندھی کو ڈی راجہ کی اہلیہ اور سی پی آئی امیدوار اینی راجہ کے چیلنج کا سامنا ہے۔ میں یہ طے کرنے کا کام مکمل طور پر اپنے لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی اور اے آئی سی سی صدر ملکارجن کھڑگے پر چھوڑتا ہوں کہ پورنیہ کی لڑائی میں میرا کردار کیا ہو گا۔
  واضح ہو کہ پپو یادو نے آخری بار 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت وہ مدھے پورہ سے آر جے ڈی کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ انہوں نے 1990 کی دہائی میں تین بار (دو بار آزاد امیدوار کے طور پر) پورنیہ کی نمائندگی کی۔ گزشتہ ہفتے، جب آر جے ڈی صدر لالو پرساد نے بیما بھارتی کو پارٹی ٹکٹ دیاہے۔ بیما بھارتی پورنیہ ضلع کے رپولی اسمبلی حلقہ سے جے ڈی یو رکن تھیں۔حال ہی میں انھوں نے ’’تیر‘‘ کو چھوڑ کر ’’لالٹین‘‘ تھام لیا ہے۔ پارٹی بدلنے کے انعام میں آرجے ڈی نے انھیں پورنیہ لوک سبھا سیٹ سے چناؤ لڑنے کا پروانہ دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے مکھیا کے طور پر لیا گیا مانا جا رہا ہے۔اس کو لیکر لالو پرساد یادو پر تو انگلیاں اٹھ ہی رہی ہیں بہار پردیش کے کانگریس صدر اکھلیش سنگھ بھی الزام کی زد میں آ رہے ہیں۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ آر جے ڈی کی دلی خواہش ہے کہ بہار م میںکانگریس اپنی اوقات میں رہے اور ریاستی کانگریس کے چند لوگوں کے بارے میں یہ چرچا ہے کہ پارٹی میں زمینی سطح کا کوئی مضبوط لیڈر نہیں ابھرے تاکہ ان کی دال روٹی چلتی رہے۔موجودہ حالات میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ پپو یادو کو مدھے پورہ یا سپول سے قسمت آزمانے کے لیے کہا جا سکتا ہے، لیکن مسئلہ ہے کہ یہ تینوں سیٹیں آر جے ڈی کے کھاتے میں آ گئی ہیں۔ ویسے پپو یادو نے جو فیصلہ لیا ہے، اس کا اظہار اشارے اشارے کر ہی دیا ہے۔ پپو یادو کے اس فیصلے سے لالو یادو کی ٹینشن کا بڑھنا فطری ہے۔ بات یہ ہے کہ جے ڈی یو امیدوار سنتوش کشواہا بھی پورنیہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لالو کو خدشہ ہے کہ اگر پپو یادو راضی نہیں ہوئے تو انتخابات میں’’انڈیا‘‘ اتحاد کے ووٹ بیما بھارتی اور پپو یادو کے درمیان تقسیم ہو جائیں گے۔ اس طرح جے ڈی یو امیدوار کی جیت یقینی ہو جائے گی۔قابل ذکر ہے پورنیہ میں کل 22 لاکھ ووٹر ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد 7 لاکھ ہے۔ یادو ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ دو لاکھ انتہائی پسماندہ لوگ ہیں۔ بیما بھارتی کا تعلق انتہائی پسماندہ سماج سے ہے۔لالو یادو کی سوچ تھی کہ یادو ووٹر ان کی وجہ سے اور انتہائی پسماندہ ووٹر بیما بھارتی کی وجہ سے ان کا ساتھ دیں گے، لیکن اب انھیں پپو یادو کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔اب تو لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’گھر کو لگے نہ آگ کہیں گھر کے چراغ سے!‘‘
******************