یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے

تاثیر،۱۰مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ موبائل فون نے، جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے، وہیں اس کے بے جا استعمال نے بہت سی نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔بات تب خطرناک ہو جاتی ہے، جب ایک چھ ماہ کے بچے کو بہلانے کے لیے موبائل کی سکرین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بچے کا ذہن، جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے، وہ اس کی جانب کھنچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ والدین اسی بات کو سکون سمجھ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں بغیر یہ جانے کہ وہ خود اپنے بچے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کر رہے ہیں، جس سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق بچوں کا ذہن بڑوں کے مقابلے میں دو گنا ریڈیو ایکٹیو ویویز جذب کرتا ہے اور یہی لہریں بون میرو بڑوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ جذب کرتا ہے۔ اسی لیے موبائل سکرین کا ابتدائی عمر میں استعمال اور بے تحاشا استعمال بہت سی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔آٹزم کا نام ہم آج کل بہت سن رہے ہیں۔ 2020ء  میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایک سال یا اس سے کم عمر بچے کے زیادہ موبائل سکرین استعمال کرنے سے آٹزم کا خطرہ ہوتا ہے، جو تین سال کی عمر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جب بچہ سکول میں داخل کروایا جاتا ہے۔ نتیجتاً سکول میں بچہ ساتھی بچوں سے لڑتا ہے اور پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتا اس لیے اس کو کند ذہن قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہماری مشرقی سوسائٹی میں ایسے بچے ماں باپ کی طرف سے نہ پڑھنے کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ وجہ والدین نے خود پیدا کی ہوتی ہے۔
موبائل سکرین استعمال کرنے کے لیے آنکھوں کو نامحسوس انداز سے سکیڑنا پڑتا ہے، جو بچے کی نظر پر بوجھ ڈالتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ نیند کی کمی بھی ایک اہم بیماری کے طور پر سامنے آئی ہے، جو موبائل فون کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اصل میں بچوں میں تجسس بہت پایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر موبائل چیک کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ذمہ دار وہ والدین بھی ہیں، جو موبائل پر الارم لگا کر اس کو تکیہ کے ساتھ یا اس کے نیچے رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک بچے کا ذہن ان ریڈیو ایکٹیو ویویز کو زیادہ جذب کرتا ہے۔ ایسے الارم بھی ان کی نیند کی کمی کی وجہ بنتے ہیں۔اس کے علاوہ موبائل پر زیادہ وقت جھکے رہنے سے گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی الائنمٹ بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے گردن اور کمر میں درد یا کھڑے ہونے کا انداز متاثر ہوتا ہے۔زیادہ وقت موبائل کا استعمال کرنے سے بچے آس پاس کے لوگوں میں کم گھلتے ملتے ہیں، جس سے ان کو رویوں کا احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے معاشرتی رویوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔
2019 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بچوں  کے لیے کچھ گائیڈ لائنز مرتب کیں، جن میں ان کی جسمانی اور ذہنی ایکٹویٹی پر زور دیا ہے۔ جبکہ پانچ سال کی عمر تک موبائل کا استعمال کم سے کم کروانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سال یا ایک سال سے کم عمر بچوں کو موبائل سکرین سے متعارف کروانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ امریکہ کی اکیڈمی آف پیڈریاٹکس کی تجاویز کے مطابق 18 ماہ سے کم عمر بچے کو موبائل سکرین استعمال نہیں کروانا چاہیے کیونکہ یہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت اور بڑھوتری پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے والدین کو ہی اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ بڑھتی ہوئی عمر میں ان کا تدارک کر لیا جائے تو بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ بچے کو بہلانے کے لیے یا چپ کروانے کے لیے موبائل کا استعمال نہ کریں خاص طور سے اگر وہ دو سال سے چھوٹا ہے۔ اتنی عمر کے بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر روتے ہیں، اس لیے ان کو توجہ دیں موبائل نہیں۔اگر آپ کا بچہ کچھ بڑا اور سمجھدار ہے تو اس کے موبائل کے استعمال کرنے کا وقت مقرر کریں  اور جب بھی وہ موبائل استعمال کرے، اس پر نظر رکھیں تاکہ وہ گردن نہ زیادہ جھکائے اور سکرین کو آنکھوں کے قریب نہ کر لے۔ اس کے علاوہ بچہ کیا دیکھتا ہے اس پر بھی نظر رکھیں۔ کوشش کریں کہ بچہ تعلیمی مواد دیکھے تاکہ وہ وقت، جو وہ موبائل کو دے رہا ہے، اس دوران کچھ سیکھے بھی۔ اس کے لیے آپ سکرین ٹائم سیٹ کرنے کی یا مواد تک رسائی کی ایپس بھی استعمال کر سکتے ہیں۔اگر ہو سکے تو والدین کو چاہئے کہ جب تک ان کے بچے سمجھداری کی عمر کو نہیں پہنچتے، خود اپنا سکرین ٹائم کم کر دیں۔موبائل کمپنیز کو کڈز فرینڈلی موبائلز پر کام کرنا چاہیے، کیونکہ ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں کو ٹیکنالوجی سے زیادہ دیر دور رکھنا ناممکن ہے۔
  سچی بات صرف یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کے رویے میں تبدیلی لا ئیں تو پہلے بڑوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔12 سے 15 سال کی عمر، بچوں کی تربیت سازی کے اعتبار سے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر کے بچے گھر کے علاوہ زیادہ تر اپنے دوستوں تک محدود ہوتے ہیں، انھیں ان کے مزاج کے حساب سے غلط صحیح سمجھانا چا ہئے۔وہ کیا دیکھ رہے ہیں، کن ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں، کیسی گیمز کھیلتے ہیں، انہیں روکنے کی بجائے اگر شروع سے ’پیرنٹل کنٹرول ایپلیکشنز‘ کے ذریعے استعمال کا عادی بنائیں گے تو آئندہ آپ کے لیے مشکل پیش نہیں آئے گی۔ حد درجہ سختی انھیں ممنوعہ راستوں کی جانب بھی راغب کر سکتی ہے۔ ہر وقت احکامات دینے کی بجائے کچھ ان کی مان لیں، کچھ اپنی منوا لیں۔ بچوں پر اتنا اعتماد ضرور ہونا چاہئے کہ وہ کسی بھی مسئلے یا پریشانی میں بات چھپانے یا کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی بجائے خود آپ سے شیئر کریں۔اگر والدین اور بچوں کے درمیان اتنا خوشگوار فضا بن جاتی ہے تو پھر بچوں کی رہنمائی بہت ہی آسان ہو سکتی ہے اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔
*******