! آنے والی راتوں کی قدر دانی ضروری

تاثیر،۲۸مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

کل کے بعد ان شاء اللہ رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ شروع ہو جائے گا۔  تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی کا عشرہ کہلاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کا آغاز ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پھر درمیانی عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا چشمہ رواں دواں ہوجا تا ہے۔اور جب آخری عشرہ آتا ہے تب اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے عذاب اور اس کی ناراضگی کا نتیجہ ’’نارجہنم ‘‘ سے آزادی کے پروانے جاری ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اس طرح ماہِ رمضان رحمتوں، مغفرتوں اور جہنم سے آزادی کے پروانوں کو تقسیم کرتا ہوا دبے پاؤںہم سے رخصت ہوجاتا ہے۔
ماہ رمضان کا آخری عشرہ خصوصی اہمیت و توجہ کا حامل ہوتا ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو پہلے دو عشرے اپنی غفلتوں کی نذر کرچکے ہوتے ہیں۔ ان کے لئے اب یہ آخری موقع ہے تاکہ وہ پورے ماہ رمضان کو ضائع کرکے اس بددعا کے سزاوار نہ ٹھہریں: ’’ہلاک و برباد ہوجائے وہ شخص جو یہ مہینہ پائے اور اپنی بخشش کا سامان نہ کرسکے۔‘‘علاوہ ازیں جن احباب نے رمضان کے پہلے دو عشروں کو عبادتوں اور ریاضتوں سے مزین رکھا، ان کے لئے یہ آخری عشرہ پورے رمضان کا خلاصہ، نتیجہ اور ثمرہ ہے۔لہٰذا، یہ دھیان رہے کہ عید کی خریداری کے نام پر یہ آخری عشرہ کہیں ہاتھ سے نہیں نکل جائے۔ رمضان المبارک کے اس آخری عشرے کو بار آور بنانے والے امتیازی اعمال دو ہیں۔پہلااعتکاف اور دوسراشبِ قدر میں عبادت۔ اعتکاف کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: ’’اور یہ حکم کیا ہم نے ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ کو کہ خوب پاک رکھو میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لئے اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے۔‘‘(سورۃ البقرۃ: 125)۔بلا شبہہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور سب سے افضل مسجد ’’مسجد الحرام‘‘ ہے۔ چنانچہ مسجد الحرام میں اعتکاف کرنا سب سے افضل ہے، اس کے بعد مسجد نبوی شریف میں اور تیسرے نمبر پر مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں۔ اس کے بعد تمام مساجد برابر ہیں، البتہ جس مسجد میں نماز پنجگانہ ہوتی ہو، وہاں اعتکاف کرنا افضل ہے۔ نیز جس مسجد میں اہل اللہ کے مواعظ و دروس ہوتے ہوںاور ان کے دم سے وہاں اصلاح و ارشاد کا سلسلہ قائم ہو تو، اس مسجد میں اس نیت کے ساتھ کہ مجھے فائدہ پہنچے گا، اعتکاف کرنا بلاشبہ افضل و بہتر ہے۔ البتہ خواتین کے لئے اپنے گھر کے کسی مخصوص کمرے کے ایک گوشے میں معتکف ہونا اچھی بات ہے۔
اعتکاف نام ہے خانۂ خدا میں عبادت کی نیت کے ساتھ ٹھہرنے کا۔ اعتکاف میں بندہ خود کو اللہ کے گھر میں لاکر ڈال دیتا ہے اور بزبان حال یوں گویا ہوتا ہے کہ: ’’یا اللہ! تیری رضا کے لئے دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہوں، تیرے حکم پر رکوع و سجود بجالاتا ہوں، تیرے ارشاد کے موافق زکوٰۃ و فطرانہ ادا کرتا ہوں، تیری کتاب قرآن کریم کی تلاوت کر کے تجھ سے ہم کلام ہوتا ہوں، تیرا ذکر کرکے اپنے دل کو تیرے لئے صاف کرتا ہوں، تیرے محبوب پیغمبر آنحضرت ﷺکی بارگاہ میں درود شریف کا ہدیہ پیش کرکے تیری رحمت کا سوالی بنتا ہوں، اب میں تیرے گھر میں آپڑا ہوں اور تیری رحمت و مغفرت، تیری رضا و رضوان، تیری جنت کا طالب ہوں، تیرے غیظ و غضب سے خائف، تیری ناراضگی سے ڈرا ہوا اور تیرے جہنم سے چھٹکارے کا طلبگار ہوں، اب تیرے گھر سے تجھے مناکر ہی اٹھوں گا۔ ‘‘
اس ماہ مبارک کے آخری عشرہ  میں دوسری اہم و امتیازی خصوصیت کی حامل شبِ قدر ہے۔ قرآن کریم میں پوری ایک سورۃ ’’سورۃ القدر‘‘ اس کی شان میں اتاری گئی ہے۔ یہ شب ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ گویا پچھلی امتیں جو زیادہ عمر والی ہوتی تھیں اور اس بناء پر زیادہ عبادتیں کرنے کے مواقع پالیتی تھیں، اس امت کی کم عمری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے عمل پر زیادہ اجر و ثواب کی بشارت دے دی ہے اور یوں ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب سمیٹ لینے کے مواقع میسر ہیں۔ اس لئے اس رات کی بے قدری بالکل نہیںہونی چاہئے ۔ یہ رات تو ہے ہی قدر والی۔ چنانچہ اس کی قدر کرکے ہم اپنی قدر بڑھاسکتے ہیں اور اس شب کی بے قدری خدانخواستہ میزانِ اعمال میں ہمارے اعمال کی بے قدری کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔
یوں تو رمضان کی پہلی رات سے ہی شبِ قدر کی تلاش شروع کردینی چاہئے، اگرچہ مختلف احادیث کی بناء پر شب قدر کا آخری عشرہ میں ہونا زیادہ متوقع ہے، لیکن شروع رمضان ہی سے ہر رات کی قدر اور اس میں حسبِ توفیق عبادت الٰہی میں مشغول رہنا، دراصل ہمیں شب قدر کی برکات کے حصول کے لئے مستعد و تیار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اسی لئے رسول اللہﷺ شب قدر کی تلاش میں خود بھی ہمیشہ اعتکاف میں بیٹھے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی تاحیات یہی معمول رہا۔آنحضرت ﷺ نے امت کو شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کا وقت غروب آفتاب سے شروع ہوکر صبح صادق تک رہتا ہے۔ اس شب میں عبادت کرنے والے سے فرشتے مصافحہ کرتے اور اسے سلام کہتے ہیں اور اس کی دعائوں پر آمین کہتے ہیں۔
  رمضان کے آخری عشرہ کا اختتام لیلۃ الجائزہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ انعام والی رات ہے۔ پورا مہینہ اہل ایمان روزے، تراویح، تلاوت، دعا اور دیگر عبادات کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوش ہوکر اس رات میں انہیں نوازتا ہے۔ حضرت ابو امامہ ، حضرت ابودرداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی راتوں میں عبادت کرنے والے کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا ،جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔عیدین کی رات ان راتوں میں سے ہے ،جن میں مانگی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔یہاںاس بات کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جہاں راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی فضیلت مذکور ہے، وہاں اس سے مراد پوری رات جاگنا نہیں ہے، بلکہ طبیعت کی چستی اور نشاط کے ساتھ، جس قدر جاگنا ممکن ہو، جاگ کر عبادت کرلی جائے۔ جاگنے کا مطلب طبیعت پر بوجھ ڈالنا قطعی نہیں ہے۔ ایک حدیث میں تو عشاء کی نماز باجماعت اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے پر پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جانا بھی وارد ہوا ہے۔ لہٰذا نفل عبادت کے لئے رات بھر جاگ کر فرض سے غافل ہو جانا بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے گزرتے دنوں اور آنے والی راتوں کی قدر دانی نصیب فرمائے۔( آمین)
*******