تاثیر،۱۲مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
بہار کی نتیش حکومت نے کانٹریکٹ اساتذہ کو خصوصی اساتذہ کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے انھیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لئے امتحان دینا ہوگا۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف وہی امیدوار، جو اس اہلیتی ٹیسٹ میں کامیاب ہوں گے خصوصی اساتذہ کا درجہ حاصل کرنے کے حقدار ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال بھی زیر بحث تھاکہ اس اہلیتی ٹیسٹ میں ناکام ہونے والے اساتذہ کی نوکری کیا ختم ہو جائے گی ؟ لیکن ، ایسا نہیں ہے، اگر کوئی استاذ اس امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا ہے، تو وہ اپنی ملازمت سے محروم نہیں ہوگا۔کچھ ایسا ہی اشارہ نتیش حکومت نے اساتذہ کو بھی دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اہلیتی ٹیسٹ کے فیصلے کے بعد سے اساتذہ میں نوکریاں چھن جانے کا خوف شروع ہو گیا تھا۔ اس سے ان کا پریشان ہونا فطری تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ جو اساتذہ اس اہلیتی ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہو ں گے تو کیا وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے؟ اس سوال کو لے کر ریاست کے تمام کانٹریکٹ اساتذہ خوفزدہ تھے۔ سمریندر کمار سنگھ نام کے ایک استاذ نے اس معاملے کو لے کر پٹنہ ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی تھی۔ اس عرضی کی روشنی میں ہائی کورٹ نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے محکمہ تعلیم سے حلف نامہ داخل کرنے کو کہا تھا۔ اس حلف نامے میں محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ اہلیتی ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے والے اساتذہ اپنی ملازمت سے محروم نہیں ہوں گے۔ خصوصی استاذ کا درجہ حاصل کرنے کے لیے انھیں اہلیتی ٹیسٹ میں کامیاب ہونا ہوگا۔ اس کے بعد ان کو ان کی واجب الادا تنخواہ اور دیگر کئی مراعات ملنے لگیں گی۔
اس سے قبل محکمہ تعلیم کے اے سی ایس کے کے پاٹھک کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارش سے اساتذہ کافی پریشان تھے۔سفارش میںکہا گیا تھا کہ امتحان میں 5 بار فیل ہونے یا غیر حاضر رہنے کی صورت میں اساتذہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصے سے پڑھانے والے بہار کے کانٹریکٹ اساتذہ کی ناراضگی صرف اس لیے نہیں تھی کہ انہیں ریاستی ملازم کا درجہ حاصل کرنے کے لیے اہلیتی ٹسٹ سے گزرنا پڑےگا۔ ان کی ناراضگی اس بات کو لیکر بھی رہی ہے کہ محکمہ تعلیم سے متواتر جاری ہونے والے طرح طرح احکامات نے بھی ان کے چین و سکون کو درہم برہم کر دیا ہے۔ ان کی شکایت یہ بھی رہی ہے کہ ریاستی حکومت نے انہیں سرکاری ملازمین کا درجہ دینے کی بات کرکے خوب داد حاصل تو کی ہے، لیکن وہ اپنے وعدے کو وفا کرنے کے معاملے میں بالکل ہی سنجیدہ نہیں ہے۔اساتذہ اس کی وجہ صرف اور صرف محکمہ تعلیم کے اے سی ایس کے کے پاٹھک کو مانتے ہیں۔ ناراض ٹیچرز یونین کے مختلف مطالبات ابھی بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔
کانٹریکٹ اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی بہار میں تعلیم کی سطح گزشتہ 20 سالوں سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود تعجب کی بات ہے کہ ان کی کارکردگی اور اہلیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب انہیں سرکاری ٹیچر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے اہلیتی ٹسٹ پاس کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ کانٹریکٹ اساتذہ قابلیت کا امتحان پاس کر چکے ہیں، توپھر ان کا اہلیتی ٹیسٹ کیوں لیا جا رہا ہے؟
اساتذہ کو بہار حکومت کی نیت ہی درست نہیں نظر آتی ہے۔اساتذہ کا حکومت سے سوال ہے کہ جب اسکول سرکاری ہیں تو اس میں پڑھا رہے صرف چند اساتذہ ہی سرکاری کیوں ہوں گے؟ ان کا دعویٰ ہے کہ ایسے بھی کئی کانٹریکٹ اساتذہ ہیں جو سرکاری اساتذہ سے زیادہ اہل یا برابر کی اہلیت رکھتے ہیں، پھر حکومت انہیں سرکاری اساتذہ کیوں نہیں سمجھتی ہے؟ ان پر قابلیت کا امتحان پاس کرنے کی غیر ضروری شرط کیوں تھوپی جا رہی ہے؟ یہی نہیں جب بھی حکومت کو ان کی ضرورت پڑتی ہے یا الیکشن کمیشن کو انتخابی کام میں لگانا پڑتا ہے تو ملازم اساتذہ سرکاری اساتذہ کی طرح ہی کام کرتے ہیں۔ لیکن، تدریس کے لئے تعینات اساتذہ کو اب اہلیت ثابت کرنے کے لئے ٹسٹ سے گذرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔
کانٹریکٹ اساتذہ کے دلائل ایسے ہیں کہ انہیں یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر تعلیم نے یقین دہانی کرائی تھی کانٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ اب سرکاری اساتذہ بنیں گے۔ لیکن، اس کے لئے انہیں اہلیت کے امتحان میں شامل ہونا پڑے گا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اب تک وہ جس طرح سے بچوں کو پڑھا تے آ رہےہیں کیا اہلیتی ٹسٹ پاس کر جانے کے بعد دوسرے ڈھنگ سے پڑھانے لگیں گے ؟ اساتذہ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ حکومت انہیںاہلیتی ٹسٹ کے بہانے نوکری سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اساتذہ کو یہ بھی شک ہے کہ حکومت تعلیم کی نجکاری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسکولوں کے پاس سرکاری اراضی ہونے کے باوجود انہیں بے زمین قرار دے کر پہلے کسی اور سکول میں شفٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد ان کو ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف سپول ضلع میں 282 نئے بنائے گئے پرائمری اسکولوں میں سے 150 ایسے اسکولوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔ حالانکہ وہ برسوں قائم تھے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے آبائی ضلع میں بھی ایسے 32 اسکولوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کے پاس زمین نہیں ہے۔ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ کانٹریکٹ اساتذہ کی باتوں پر بھی غور کرے اور ان کے جو مطالبات قابل قبول ہیں، ان پر رضامندی ظاہر کر کےریاست میںپڑھنے اور پڑھانے کے ماحول میں بہتری لانے کی کوشش کرے۔اساتذہ کو اپنی ڈیوٹی کا پابند ضرور بنایا جا نا چاہئے ، لیکن ان کی عزت نفس کا بھی خیال ہونا چاہئے۔ریاست میں بہتر تعلیم کے لئے بہترین ڈھنگ سے ماحول سازی کی ضرورت ہے۔انا کی جنگ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
***************