تدوین متن کوئی آسان عمل نہیں۔ ڈاکٹر منی بھوشن کمار

تاثیر،۱۹مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ میں آج پی ایچ ڈی کورس ورک کا لیکچر اپنے آخری منازل کو طے کرتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہونچا، جس میں مہمان مقرر کے طور پر ڈاکٹر منی بھوشن کمار کو آج کے خاص لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔
جس میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا طلبہ اور طالبات کے سنہرے مستقبل کے لئے پرمغز اور نصیحت آموز باتیں کی گئیں، کہ اگر طلبہ ان  باتوں پر عمل پیراں ہوئے تو انشاءاللہ وہ  ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوں گےورنہ لوگ جب اپنی کامیابی اور ناکامیابی پر بات کرتے ہیں تو جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ توخاص طور سےان تین باتو پر عمل کرکے اپنی منزل کو طے کر لیتے ہیں۔  ایک  تو یہ ذمہ داری دوسرا شوق اور تیسرا یکسوئی یعنی مکمل توجہ سے آپ کا جو گول ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے گول کیلئے کبھی بھی عجلت سے کام نہ لیں بلکہ ثابت قدم رہتے ہوئے صبر سے اپنے کام کو انجام دیں تو ایک نہ ایک روز آپ اپنے منزل مقصود تک ضرور رسائی پائیں گے۔
ڈاکٹر منی بھوشن کمار نے اپنے خاص لیکچر میں تدوین متن اور طریقۂ کار کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی۔
تدوین بمعنی جمع کرنا، اور متن بمعنی اصل عبارت، تو تدوین متن کا مطلب ہوا اصل عبارت کو جمع کرنا۔ اور انگریزی میں صحیح متن کی بازیافت کو Textual Criticism کہتے ہیں۔ انگریزی میں تدوین کے فن کو ببلیو گرافی، اور مدون متن کو ببلیو گرافر، کہتے ہیں۔ تدوین کو تحقیق کا ہی ایک شعبہ کہ سکتے ہیں کیونکہ جو کام تحقیق کا ہے وہی کام تدوین میں ہوتا ہے۔تدوین متن کی روایت عربی میں بیسوی صدی میں تحقیق اور اس کی شاخ تدوین، ان دونوں کے ضابطے۔ مغربی اصولوں کو دیکھ کر بنائے گئے، اور اردو میں عالمانہ تدوین کی ابتداء محمود شیرانی اور مولانا عرشی نے کی۔
مدون اور مرتب دونوں ایک ہی معنی میں مستعمل ہوتا ہے، تدوین کا کام خاص طور سے قدیم کتابوں سے متعلق ہوتی ہیں۔ جیسے کلیات سودا، کلیات میر، کلیات غالب، کلیات اقبال  یا اس دور کی یا اس سے پہلے کی بھی جو کتابیں ہیں اس پر تدوین کا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس دور جدید میں تدوین متن پر کام نہ ہونے کے درجہ میں ہے کیونکہ آج کل مصنف کا لکھا ہوا فورا ہی کتابی شکل میں منظر عام پر آجاتی ہیں۔
ڈاکٹر منی بھوشن کمار نے ریسرچ اسکالر اور دیگر طلبہ و طالبات کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے متنبہ کئے کہ تدوین متن کا کام بہت ہی مشکل ہے اور اس سے متعلق لائبریری اور  بازاروں میں جو کتابیں ہیں وہ مکمل مستند نہیں مل پاتی، کچھ نہ کچھ کمی کوتاہی کے ساتھ ملتی ہیں کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے متعلق کتابیں ہی نہیں مل پاتی ہیں۔ تدوین متن پرتحقیقی کام کرنا کتنا مشکل ہے اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہے کہ (فائز پر مسعود حسن رضوی نے بیس سالوں تک کام کیا لیکن یہ پتہ نہیں لگا پائے کہ فائز کے والد کا نام کیا تھا ؟ جب آپ کا یہ کام منظر عام پر آیا تو کسی اور نے بتایا کہ ان کے والد کا نام یہ ہے۔  اس سے بھی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رشید حسن خاں نے گیارہ مخطوطات کو بنیاد بنا کر سحرالبیان کا کام کیا۔ )
ان دو باتوں سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تدوین متن کا کام کتنا مشکل ہے جب اس زمانے میں جو زبان، سماج اور معاشرت ہر چیز سے واقفیت کے بغیر اتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ایک لمبے وقت کے بعد بھی۔
تو اب آپ لوگ ہی اندازہ لگائے کہ ایک ریسرچ اسکالر تدوین متن پر کیسے کام کر سکتا ہے جب کہ مقالے پر کام کرنے کیلئے ایک متعین وقت ہوتا ہے جس میں اسکار اپنے مقالے کو لکھ کر وقت متعینہ میں جمع کرنا ہوتا ہے،جبکہ تدوین متن کیلئے وقت کی درکار ہوتی ہے۔ تدوین متن سے اسکالر کو منع نہیں کیا جا رہا ہے کہ وہ اب اپنی زندگی میں تدوین متن کے حوالے سے کام ہی نہیں کرسکتا ہے۔ کر سکتا ہے بشرطیکہ آپ کے پاس طویل وقت ہو تاکہ آپ تدوین متن کا کام تسلی بخش طریقے سے کریں، تاکہ آپ کو بھی فائدہ ہو اور جب منظر عام پر آئے تو قاری بھی استفادہ کرے۔
تدوین متن کا کام نثر اور شاعری میں ہوتا ہے، اور تدوین متن کا کام اتنا مشکل ہے کہ آپ اس جملے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ،،کالی ندی کمانی،، درست جملہ یہ ہے۔ ،، گالی نہ دے گمانی،،
اب آپ ہی اندازہ لگائے کہ ایک جملے کا کیا مطلب ہو رہا ہے جبکہ جبکہ یہ کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ لفظ کی بھی بہت اہمیت ہے ایک لفظ ہے لفظ ڈومنی، اس کا معنی بھی زمانے کے اعتبار سے بدل جاتا ہے، غالب کے زمانے میں لفظ ڈومنی کا معنی ،، مار،، آتاہے۔ اور امراؤجان ادا ، میں اس کا معنی طوائفوں کا ایک گروہ۔ اور تدوین کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ مصنف کا منشاء منظر عام پر لائے، ناکہ اپنی رائے کا دخل کریں۔ اس لئے اس کام میں بہت ہی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے حواشی،فٹ نوٹ،اینڈ نوٹ،ضمیمہ،اشاریہ اور پیش لفظ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ریسرچ اسکالروں کو تحقیق کا فن از گیان چند جین، تحقیق و تدوین مسائل و مباحث از حنیف نقوی، اردو میں ادبی تحقیق کے بارے میں از قاضی عبدالودود،متنی تنقید از خلیق انجم، اور اصول تحقیق اور ترتیب متن از تنویر احمد علوی۔ کے بارے میں بتاتے ہوئے آپ نے کہا کہ ان کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں یہ کتابیں بہت ہی مفید اور کارگر ثابت ہونگی۔
قبل ازیں ڈاکٹر  محمدضمیر رضا نے مہمان کا مکمل تعارف کراتے ہوئے ان اشعار سے استقبال کیا۔  شعر
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے۔

کب ٹھہرےگا درد ائے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
اور اس طرح اس آخری لیکچر کا اختتام صدر شعبۂ اردو کے شکریہ  کے کلمات سے اختتام پزیر ہوا۔