تاثیر،۱۶مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بانڈز سے متعلق معلومات فراہم کر دی ہیں۔ان معلومات کو الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی کردیا ہے۔ ڈیٹا عام ہوتے ہی سب سے زیادہ عطیہ دینے والی کمپنیوں کے نام سامنے آگئے ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ کس پارٹی کو سب سے زیادہ اور کس کو سب سے کم چناوی چندہ ملاہے۔ چناوی چندہ کے اعداد و شمار 12 اپریل، 2019 سے 11 جنوری ,2024 تک کے ہیں۔ الیکٹورل بانڈز کے توسط سے چناوی چندہ دینے والوں کے نام کی فہرست سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ لاٹری کنگ مارٹن سینٹیاگو (59 سال) نے بطور چندہ سب سے زیادہ 368 کروڑ روپےدئے ہیں۔ مارٹن کی کمپنی فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹلز سروسز نے یہ بانڈز 21 اکتوبر، 2020 سے جنوری، 2024 کے درمیان خریدے ہیں۔
قابل ذکرہے کہ لاٹری ریگولیشن ایکٹ 1998 کے آئی پی سی کے تحت مارٹن کی کمپنی کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی کمپنی سکم، ناگالینڈ اور مغربی بنگال سمیت پورے ملک میں لاٹری ٹکٹ فروخت کرتی ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے 23 ستمبر، 2023 کو فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹلس سروسز کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ بھی داخل کی تھی۔ فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز کےمالک مارٹن سینٹیاگو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے میانمار میں ایک معمولی مزدور سے ’’لاٹری کنگ‘‘ بننے کا سفر شروع کیا تھا۔بعد میں وہ ہندوستان آیا اور 1988 میں اس نے تامل ناڈو میں اپنا لاٹری کا کاروبار شروع کیا۔ کوئمبٹور میں رہتے ہوئے، وہ آہستہ آہستہ کرناٹک اور کیرالہ کی طرف پھیل گیا ۔پھر اس نے سکم، میگھالیہ، اروناچل پردیش، پنجاب اور مہاراشٹر میں بھی کام کرنے کی اجازت حاصل کی۔ عام لوگوں کے درمیان خواب بیچتے بیچتےوہ دولت اور اثر و رسوخ کا ایسا مالک بن گیا کہ الیکٹورل بانڈزکی شکل میں اسے بی جے پی کو 368 کروڑ روپے کا چناوی چندہ دیتے دیر نہیں لگی۔واضح ہو کہ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ عطیہ دینے والی کمپنیوں میں فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز ہی کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ کمپنی نے ایس بی آئی سے 1368 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈ خریدے ہیں۔ میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ دوسرے نمبر پر ہے۔ کمپنی نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے 966 کروڑ روپے کا چناوی چندہ دیا ہے۔ اس کے بعد کوئیک سپلائی چین پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام 410 کروڑ روپے ہیں۔ جبکہ ہلدیہ انرجی لمیٹڈ نے 377 کروڑ روپے، ویدنتا لمیٹڈ نے 376 کروڑ روپے، ایسل مائننگ اینڈ انڈسٹریز لمیٹڈ نے 225 کروڑ روپے کا چناوی چندہ الکٹورل بانڈز کے ذریعے دیا۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیاکے ذریعہ فراہم معلومات کے مطابق 1 اپریل، 2019 سے 15 فروری کے درمیان کل 22,217 انتخابی بانڈ خریدے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے 22,030 بانڈز کو کیش کرایا ہے۔ چندہ حاصل کرنے والی مقبول جماعتوں میں بی جے پی 6060کروڑ وڑ روپے لے کر پہلے نمبر پر رہی ۔ جبکہ 1609 کروڑ روپئے حاصل کر کے ٹی ایم سی دوسرے اور 1421 کروڑ روپے کے ساتھ کانگریس تیسرے نمبر پر تھی۔ ان کے علاوہ بی آر ایس کو 1214 کروڑ روپے، بی جے ڈی کو 775 کروڑ روپے، ڈی ایم کے کو 639 کروڑ روپے ملے ہیں۔
ظاہر ہےمعلومات سامنے آنے کے بعد اپوزیشن اس معاملے پر بی جے پی پر حملہ آورہے۔ سابق مرکزی وزیر اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل اسے سب سے بڑا گھوٹالہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس معاملے میں ایس آئی ٹی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ کانگریس مبینہ طور پر اسے دنیا کا سب سے بڑا اکسٹرشن ریکیٹ قرار دے رہی ہے۔ویسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب الیکٹورل بانڈز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ چناوی چندہ کے اس طریقے نے سیاسی گلیاروں میں ہلچل تو مچا ہی دی ہے، عوامی سطح پر بھی ہر طرف چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔
اس چناوی چندہ کے حوالے سپریم کورٹ کے سینئر ایدوکیٹ اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل کا کہنا ہے کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم ملک کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے۔ الیکٹورل بانڈز کے ذریعے کمپنیوں نے اپنے مفاد میں سیاسی جماعتوں سے ہیرا پھیری کی ہے۔ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خسارے میں چلنے والی کمپنیوں نے بھی الیکٹرانک بانڈز کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، سبل یہ بھی مانتے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی تحقیقات نہیں ہوں گی۔اس سلسلے میں اب عدالت ہی کچھ کر سکتی ہے۔ 2 جی کیس کے حوالے سے سبل کا کہنا ہے کہ ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل ہونی چاہئے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس نے انتخابی بانڈز کے ذریعے کس پارٹی کو کتنا چندہ دیا اور سیاسی جماعتوں نے اس کے عوض میں انھیں کتنا اور کس طرح کا فائدہ پہنچایا۔کپل سبّل کی طرح کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے ذریعہ لائی گئی انتخابی بانڈ اسکیم کودنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ اور جبراََ وصولی اسکیم قرار دیا ہے۔ راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم وزیر اعظم نریندر مودی کے دماغ کی پیدا وار ہے۔ سی بی آئی اورای ڈی کیس درج کرتے ہیں اور پھر کارپوریٹ بی جے پی کو چندہ دیتے ہیں۔ الیکٹورل بانڈزکے ذریعہ حاصل رقم کی مدد سے ہی اپوزیشن کی حکومتوں کو گرانے اور شیو سینا اور این سی پی جیسی پارٹیوں کو توڑنے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔
اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا موقف کچھ الگ ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم بھارتی سیاست میں کالے دھن کے غلبہ کو ختم کرنے کی پہل ہے۔ شاہ نے کہا کہ اس اسکیم کو ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر کیا جانا چا ہئے۔ امت شاہ کا سوال ہے کہ 20,000 کروڑ روپے کے کل الیکٹورل بانڈزمیں سے، بی جے پی کو تقریباً 6000 کروڑ روپے ملے ہیں، باقی ماندہ بانڈز کہاں چلے گئے؟ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابی بانڈز کے نفاذ سے پہلے اپوزیشن جماعتیں سیاسی چندہ نقد میں لیتی تھیں۔ 1,100 روپے کے چندے میں سے وہ 100 روپے کے پارٹی کے نام پر جمع کراتے تھے اور 1,000 روپے اپنی جیب میں رکھتے تھے۔ویسے امت شاہ الیکٹورل بانڈ اسکیم کے حق میں جو کچھ بھی بول لیں، لیکن ملک کے بیشتر شہری اسے بہتر نہیں سمجھ رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے ذریعہ اسے غیر قانونی قرار دیا جانا سب کو اچھا لگ رہا ہے۔
**************************