تاثیر،۱۸مارچ ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
آخر کار وہی ہوا ، جس کا ڈر آنجہانی رام بلاس پاسوان کے بھائی اور راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے سربراہ پشوپتی کمار پارس کو چند ماہ پہلے سے ستا رہا تھا۔ بہار میںاین ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا سمجھوتا ہو گیا ہے۔ پشوپتی کمار پارس کے حصے میں ایک بھی سیٹ نہیں آئی ہے۔سیٹوں کی تقسیم والی فہرست کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے بہار این ڈی اے میں صرف پانچ پارٹیاں ہی ہیں۔فہرست کے مطابق بی جے پی کو 17، جے ڈی یو کو 16، چراغ کی پارٹی یعنی لوک جن شکتی پارٹی (آر) کو 5، اوپیندر کشواہا اور جیتن رام مانجھی کو ایک ایک سیٹ ملی ہے۔ مرکز کی این ڈی اے حکومت کے وزیر کو پشوپتی کمار پارس کو حاجی پور کی وہ سیٹ بھی ہاتھ نہیں لگ سکی ہے، جس کے وہ سیٹنگ ایم پی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ این ڈی اے کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں بات چیت کا آخری دور کل سوموار کو دہلی میں چلا تھا ۔ بات چیت میںبہار بی جے پی کے ریاستی صدر سمراٹ چودھری، جے ڈی یو کے ریاستی صدر امیش کشواہا، راشٹریہ لوک مورچہ کے صدر اوپیندر کشواہا، لوک جن شکتی پارٹی (آر) کے ریاستی صدر راجو تیواری اور ہندوستانی عوام مورچہ کے سرپرست جیتن رام مانجھی موجود تھے۔
بہار این ڈی اے میں طے شدہ سیٹ شیئرنگ فارمولے کے مطابق بی جے پی بہار کی 17 لوک سبھا سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو لوک سبھا انتخابات میں 16 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے جا رہی ہے۔ چراغ پاسوان کی پارٹی ایل جے پی (رام ولاس) کو 5 سیٹیں ملی ہیں۔ اپیندر کشواہا کی پارٹی راشٹریہ لوک مورچہ اور جیتن رام مانجھی کی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ کوایک ایک سیٹ ملی ہے۔ اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، اورنگ آباد، مدھوبنی، ارریہ، دربھنگہ، مظفر پور، مہاراج گنج، سارن، اجیار پور، بیگوسرائے، نوادہ ، پٹنہ صاحب، پاٹلی پترا، آرا، بکسر اور سہسرام کی سیٹ سے چناؤ لڑے گی۔جبکہ جے ڈی یو والمیکی نگر، سیتامڑھی، جھنجھار پور، سپول، کشن گنج، پورنیہ، کٹیہار، مدھے پورہ، گوپال گنج، سیوان، بھاگلپور، بانکا ، مونگیر، نالندہ، جہان آباد اور شیوہر لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑے گی۔ چراغ پاسوان کی پارٹی ایل جے پی( آر) ویشالی، حاجی پور، سمستی پور، کھگڑیا اور جموئی سیٹ پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے گی۔جیتن رام مانجھی کی پارٹی گیا اور اوپیندر کشواہا کی پارٹی کاراکاٹ سے قسمت آزمائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے چاچا پشوپتی کمار پارس اور بھتیجہ چراغ پاسوان کے درمیان حاجی پور سیٹ کے لئے رسہ کشی جاری تھی۔ چاچا کا دعویٰ تھا کہ میں وہاں کا سیٹنگ ایم پی ہوں۔ وہاں میں نے کام کیا ہے۔اس لئے میں وہیں سے چناؤ لڑوں گا۔ دوسری طرف چراغ پاسوان کا کہنا تھا کہ وہ میری موروثی سیٹ ہے۔ میرے والد رام بلاس پاسوان وہاں سے لگاتار چھ بار ایم پی رہ چکے ہیں۔ میں ان کا قانونی وارث ہوں، اس لئے میںہر حال میں وہیں سے چناؤ لڑوں گا۔ بہار این ڈی اے کی جماعتوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے فا رمولے سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ بی جے پی کی نظر میںچراغ پاسوان میں ہی این ڈی کے’’ مشن 400‘‘ کو پورا کرنے کا دم خم موجود ہے۔
واضح ہو کہ پشوپتی پارس نے مرکز میں وزیر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے اپنے بھائی رام ولاس پاسوان کی بنائی ہوئی لوک جن شکتی پارٹی کو توڑ دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایل جے پی کے چھ میں سے پانچ ارکان پشوپتی پارس کے ساتھ چلےگئے۔ چراغ پاسوان واحد رکن پارلیمنٹ ہیں، جو اپنی کی پارٹی میں رہ گئے تھے۔ پشوپتی پارس کو زیادہ ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ہونے کا فائدہ ملا اور انہیں تین سال پہلے مرکزی کابینہ میں جگہ مل گئی۔ اسی کے ساتھ پارٹی بھی دو حصوں میںتقسیم ہو گئی۔ چراغ پاسوان ایل جے پی (آر) نامی پارٹی کے صدر بنے، جب کہ پشوپتی پارس راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے سربراہ بنے۔وزیر بنتے ہی پارس خود کو’’ پارس پتھر‘‘ سمجھ بیٹھے۔تنظیم پر توجہ دینا چھوڑ دی۔ دوسری طرف چراغ پاسوان سرگرم سیاست سے کبھی الگ نہیں ہوئے۔ وہ مسلسل بہار میں گھوم گھوم کر لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے رہے۔ بہار کے مسائل پر آواز اٹھاتے رہے۔
اِدھر بی جے پی چراغ کی تنظیمی صلاحیت کا اندازہ لگاتی رہی۔ اسے بھی پارس کی کمزوری کا احساس ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بی جے پی نے اکلوتے ایم پی کے ساتھ چراغ کی پارٹی کو زیادہ اہمیت دی اور الیکشن کے وقت پانچ ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ وزیر بننے والے پشوپتی پارس کو درکنار کر دیا۔ سیٹوں کے سوال پر دونوں نے پچھلی بار کی طرح اس بار بھی الگ الگ چھ سیٹوں کا دعویٰ کرتے رہے۔ چراغ بی جے پی قیادت کو اپنا درد، پریشانی اور بے بسی کو سمجھانے میں کامیاب رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پارس کے مقابلے چراغ کو ترجیح دیتے ہوئے انھیں پانچ لوک سبھا سیٹیں دے دی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے انہیں راجیہ سبھا کی بھی ایک سیٹ دی جائے گی۔ دوسری جانب بی جے پی نے پہلے پشوپتی پارس کوایک سیٹ دینے کی پیش کش کی تھی۔ یہ پیش کش انھیں منظور نہیں تھی۔دو دن قبل انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ این ڈی اے کی سیٹ شیئرنگ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔اگر انہیں با وقار سیٹیں نہیں دی گئیں تو وہ کسی بھی راستے پر چلنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ مگر تادم تحریر پشوپتی پارس کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔اِدھر پتہ چلا ہے کہ ان کی پارٹی کے پانچ ایم پیز میں سے دو فی الحال چراغ پاسوان کے رابطے میں ہیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک دو دن بعدپشو پتی پارس بھی ویسے ہی الگ تھلگ پڑ جائیں، جس طرح کبھی انھوں نے چراغ پاسوان کو اکیلے چھوڑا تھا۔شاید اسی صورتحال کو ’’چاہ کن را چاہ درپیش‘‘ کہا جاتا ہے۔