الکشن کمیشن سے ملک کے شہری پر امید

تاثیر،۲۳       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا کی میعاد 16 جون، 2024 کو ختم رہی ہے۔بھارت کے آئین کا آرٹیکل 83(2) اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 14 کے ذریعہ موجودہ لوک سبھا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ایک نئی لوک سبھا کی تشکیل کے لیے انتخابات کے انعقاد کا انتظام کیا گیا ہے۔ بھارت کے آئین نے ہی انتخابات کے انعقاد سے متعلق اختیارات ، فرائض و امور الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو سونپے ہیں۔ چنانچہ متعلقہ آئینی اور قانونی دفعات کے پیش نظر، ای سی آئی کے ذریعہ 543 ارکان پر مشتمل 18ویں لوک سبھا کی تشکیل کے لئےسات مراحل پر محیط انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ، شراکت دار، قابل رسائی، مبنی بر شمولیت ، شفاف اور پرامن طریقے سے کرانے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔انتخابات کے پہلے مر حلے میں پچھلے جمعہ یعنی 19 اپریل کو 102 پارلیمانی نشستوں پرووٹنگ ہو بھی چکی ہے۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ کل یعنی 26 اپریل کو ہونے والی ہے۔اس مر حلے میں13 ریاستوں کی88 سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہونی ہے۔ اس دوسرے مرحلے کے لئے حسب ضابطہ کل بروز بدھ شام 6 بجے انتخابی مہم پر پابندی لگ گئی۔ اس مرحلے میںجن ریاستوں میں ووٹنگ ہونے والی ہے، ان میں آسام، بہار، چھتیس گڑھ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، منی پور، راجستھان، تریپورہ، اتر پردیش، مغربی بنگال اور جموں و کشمیر شامل ہیں۔

لوک سبھا انتخابات، 2024 کے آس دوسرے مرحلے میں کچھ ہائی پروفائل سیٹیں بھی ہیں، جن میں متھرا بھی شامل ہے۔ یہاں سے ڈریم گرل ہیما مالنی اپنی تیسری جیت کی امید کر رہی ہیں۔ ان میں میرٹھ بھی ہے، جہاں سے بی جے پی نے رامائن کے اداکار ارون گوول کو میدان میں اتارا ہے۔ اس کے علاوہ بہار کی جن پانچ ( بھاگلپور، بانکا، کٹیہار، کشن گنج اور پورنیہ ) سیٹوں کے لئے کل پولنگ ہونی ہے، ان میں کٹیہار، کشن گنج اور پورنیہ زیادہ زیر بحث ہیں۔ 1980 سے 2014 تک لوک سبھا میںکٹیہارکی پانچ بار نمائندگی کرچکے سینئر کانگریس لیڈر طارق انور کا سیدھا مقابلہ بی جے پی کے امیدوار اور سیٹنگ ایم پی دلال چند گوسوامی سے ہے۔2019 میں معمولی فرق سے طارق انور پیچھے رہ گئے تھے۔مقامی لوگوں، جن میں ہندو اور مسلمان سبھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس بار طارق انور کی پوزیشن خاصی بہتر ہے۔کشن گنج سیٹ پر کانٹے کی ٹکر ہے۔ اختر الایمان (اے آئی ایم آئی ایم)، ماسٹر محمد مجاہد(جے ڈی یو) اور سیٹنگ ایم پی محمد جاوید (کانگریس) ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہیں پورنیہ کے سیٹنگ ایم پی (جے ڈی یو) سنتوش کمار کشواہا لگاتاتیسری بار چناؤ جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بار ان کا سیدھا مقابلہ آزاد امیدوار پپو یادو سے ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق آر جے ڈی کی بیما بھارتی ریس میں نہیں ہیں۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو دبی زبان میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ وہاں پپو یادو کا پلڑا بھاری ہے۔ زمینی حقیقت سے آگاہ لوگوں کا ماننا ہے کہ لالو پرساد یادو کا ایم وائی ایکویشن پپو یادو کی جانب شفٹ ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس سیٹ پر پورے بھارت کی نظر ہے۔

اِدھر میڈیا رپورٹ کے مطابق انتخابات کے پہلے اور دوسرے مر حلے کے درمیان ملک کے متعدد شہریوں نے سوموار گزشتہ 22 اپریل کو بھارت کے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر بی جے پی کے اسٹار کمپینر اور وزیر اعظم نریندر مودی پرمسلمانوں کے خلاف ان کے نفرت انگیز تبصرے کے لیے کارروائی کرنے کو کہا ہے۔رپورٹ کے مطابق، 2200 سے زائد شہریوں نے اسے ’’خطرناک اور بھارت کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ ‘‘ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے اپنی اپیل میں کہا ہے ’’وزیر اعظم نے،بھارتیہ جنتا پارٹی کےاسٹار کمپینر کے طور پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے 21 اپریل کو راجستھان میں ایک تقریر کی، جس نے بھارت کے آئین کا احترام کرنے والے لاکھوں شہریوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ پی ایم نریندر مودی نے اتوار، 21 اپریل کو راجستھان کے بانس واڑہ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض ریمارکس کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ’’اس سے پہلے جب ان کی (یو پی اے) حکومت تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ جب آئیں گے تو آپ لوگوں کی محنت کی کمائی کو ان میں بانٹ دیں گے ،جن کے زیادہ بچے ہیں اور جو درانداز ہیں۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی گھس پیٹھیوں کو دی جائے گی؟ کیا آپ اس کو قبول کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ’’کانگریس کا یہ منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں اوربہنوں کے سونے کا حساب کریں گے، اس کی جانکاری حاصل کریں گے اور پھر اس کا بٹوارہ کریں گے۔ بھائیو اور بہنو، یہ اربن نکسل سوچ آپ کا منگل سوتر بھی نہیں بچنے دے گی۔‘‘

پی ایم کے مذکورہ ریمارکس کی جانب الیکشن کمیشن کی توجہ مبذول کراتے ہوئے شہریوں کے گروپ نے کہا ہے کہ ووٹ مانگنے کے لئے مودی کی زبان نے دنیا میں ’’مدر آف ڈیموکریسی ‘‘کے طور پر بھارت کے قد کو بری طرح مجروح کیاہے۔خط پر دستخط کرنے والوں نے کہا، ‘اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں الیکشن کمیشن کی ناکامی صرف اس کی ساکھ اور خود مختاری کو مجروح کرے گی، جسے آپ سے پہلے تک قابل تقلید افسران نے محفوظ اور برقرار رکھا تھا۔دریں اثنا، 17500 سے زیادہ لوگوں کے دستخط والے سیو کنسٹی ٹیوشن سٹیزنز مہم کے ایک اور خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’’مودی جی نے ضابطہ اخلاق (ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) اور عوامی نمائندگی ایکٹ، 1951 کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں میں نفرت کو بھڑکانے اور بڑھانے والا بھی ہے۔‘‘ ملک کے جمہور پسند لوگوں کو یقین ہے کہ الکشن کمیشن ان کی شکایتوں پر کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے آئین کے آرٹیکل 83(2) اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 14 کی ساکھ اور وقار کو بحال رکھے گا۔