انتہا پسند یہودیوں کو لازمی جنگی خدمات سے استثناء کے خلاف اسرائیل میں سخت احتجاج

تاثیر،۱اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

تل ابیب،یکم اپریل:اسرائیل میں انتہائی کٹر مذہبی یہودیوں کو فوج میں لازمی خدمات انجام دینے سے استثناء کے معاملے میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہزاروں اسرائیلی مظاہرین نے اتوار کے روز نیتن یاہو حکومت کی پالیسی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔اسرائیلی مظاہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان پر مذہبی یہودیوں کو فوقیت دی جا رہی ہے اور دوسرے اسرائیلی شہریوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ وہ جنگ میں کٹر مذہبی لوگوں کی لازمی خدمات کے قانون کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاکہ ہر شہری بلا امتیاز اسرائیل کے تحفظ کے لیے دستیاب رہے۔واضح رہے اسرائیل میں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ فوج میں خدمات انجام دے گا۔ مردوں کے لیے لازمی فوجی خدمات کی مدت کم از کم 3 سال ہے جبکہ خواتین کے لیے یہ مدت خدمات 2 سال تک رکھی گئی ہے۔ اسرائیل میں بسنے والے کٹر اور انتہا پسند مذہبی لوگوں کو اس سلسلے میں استثناء دیا گیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی ساری توجہ مذہبی تعلیم اور اس کے فروغ پر مرکوز کر سکیں۔ اس استثناء کو 2018 سے ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ معاملہ آج کل عدالت میں زیر سماعت ہے۔نیتن یاہو حکومت نے دو روز قبل سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ اس سماعت کو طویل مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے کیونکہ حکومت کی ساری توجہ اس وقت غزہ کی جنگ پر ہے۔ اس صورتحال میں نیتن یاہو حکومت اپنے انتہا پسند اتحادیوں کے دباؤ میں ہے۔ جو کٹر مذہبی یہودیوں کے لیے فوج میں خدمات سے استثناء کو بہت اولیت دیتے ہیں۔ تاہم نیتن یاہو حکومت کو عوامی و سیاسی دونوں سطح پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیال رہے 2023 میں بھی اسرائیل میں احتجاجی مظاہروں کی ایک شدید لہر شروع ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے نیتن یاہو حکومت لرز کر رہ گئی تھی۔
یروشلم میں گزشتہ روز سڑکوں پر آنے والے ہزاروں مظاہرین چاہتے ہیں کہ سارے اسرائیلی بغیر کسی مذہبی امتیاز کے غزہ جنگ اور اس کے بعد بھی اسرائیلی حفاظت کے لیے دستیاب رہیں اور کسی کو بھی یہ استثناء نہ دیا جائے کہ وہ جنگی خدمات سے انکار کر سکے۔ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں جنگ کے دوران تقریباً 600 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ کسی جنگ میں اسرائیل کا یہ فوجی نقصان اب تک ہونے والا سب سے زیادہ نقصان ہے۔اسرائیلی ٹی وی چینل ‘این 12 نیوز’ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک ہونے والے مظاہروں میں سے یہ مظاہرہ حکومت اور حکومت مخالف پالیسیوں کے خلاف سب سے بڑا تھا۔ نیتن یاہو حکومت کو اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی کابینہ کے جنگی امور کو دیکھنے والے وزیروں کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے لیکن نیتن یاہو کی مخلوط حکومت ایسا نہ کر کے خطرے میں پڑ سکتی ہے۔مظاہرین میں شامل ایک 74 سالہ شہری کا حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا ‘نیتن یاہو حکومت کی یہ بدترین ناکامی ہے۔ یہ حکومت ہمیں گڑھے میں دھکیلنا چاہتی ہے۔’
دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کی لمبی جنگ نے بھی سوسائٹی کو تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست مان کر 30 اپریل تک لازمی فوجی خدمات کے سلسلے میں مقدمے کی سماعت مؤخر کر دی ہے۔ تاہم یہودی مدرسوں کے لیے سرکاری فنڈنگ کو روک دیا ہے۔یروشلم میں اتوار کے روز حکومت مخالف مظاہرین نے اسرائیلی پرچم اٹھا رکھے تھے اوو نئے انتخابات کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔ نیتن یاہو نے یروشلم میں ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک حالت جنگ میں ہے تو انتخابات کا مطالبہ عجیب ہے۔ تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اسرائیل فتح کے بہت قریب ہے۔ادھر تل ابیب سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین اور خاندانوں نے بھی اتوار کے روز نیتن یاہو حکومت کی یرغمالی رہا کرانے میں ناکامی پر احتجاج کیا۔