ترکیہ میں اردوغان کے اقتدار کو بڑا دھچکا، استنبول اور انقرہ سمیت 5 بڑے شہروں میں میئر کے انتخابات میں اپوزیشن کی جیت

تاثیر،۱اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

انقرہ، یکم اپریل : ترکیہ میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیب اردوغان کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ان کی پارٹی اے کے پی کو اتوار کو ملک بھر میں ہونے والے میئر کے انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترکیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت نے دارالحکومت انقرہ، استنبول اور ازمیر سمیت پانچ بڑے شہروں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ترکیہ کے صدر کے طور پر تیسری بار جیتنے کے ایک سال کے اندر بڑے شہروں میں میئر کے انتخابات میں اس شکست نے 70 سالہ اردوغان کی حکمرانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کی پارٹی کی اس شکست پر سیاسی تجزیہ کار بھی حیران ہیں۔ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اردوغان شہروں کی سیاسی قیادت پر اپنے غلبے کے حوالے سے پراعتماد تھے لیکن بلدیاتی انتخابات میں ان کی جماعت کے امیدواروں کی شکست نے انہیں آئینہ دکھا دیا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ اردوغان نے خود استنبول میں انتخابی مہم چلائی لیکن یہاں سیکولر اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے اکرام اماموگلو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ انتخابی مہم کے دوران اردوغان نے استنبول میں ایک نئے دور کے آغاز کا وعدہ کیا تھا تاہم ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی والے شہر نے اپوزیشن جماعت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اسی طرح اردوغان کی پارٹی کو دارالحکومت انقرہ میں بھی شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپوزیشن کے میئر منصور یاواس اپنے حریف سے اتنے آگے نکل گئے کہ انہوں نے آدھے سے زیادہ ووٹوں کی گنتی سے قبل ہی فتح کا اعلان کر دیا۔
بلدیاتی انتخابات میں خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے اردوغان نے کہا کہ ویسا نہیں ہوا، جیسا ان کو توقع تھی۔ ترک ٹیلی وژن پر آدھی رات کے خطاب میں اردوغان نے شکست قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت عوام کے فیصلے کا احترام کرے گی۔ ہم عوام کی خواہشات کا احترام کریں گے اور اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں گے۔
اردوغان نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز استنبول سے ہی کیاتھا۔ 1994 میں، اردوغان سابق ترک وزیر اعظم نجمتین اربکان کی ویلفیئر پارٹی کے امیدوار کے طور پر استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور 1998 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد 2003 میں وزیر اعظم بننے اور اس عہدے پر تین مدت گزارنے کے بعد وہ 2014 میں ملک کے صدر بن گئے۔
تازہ ترین شکست اس بات کی علامت ہے کہ اردوغان کی سیاسی گرفت کمزور ہونے لگی ہے۔ وہ کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ جو بھی استنبول جیتتاہے، وہی ترکیہ جیتتا ہے۔