حقیت تو الیکشن کے بعد ہی سامنے آ ئے گی

تاثیر،۲اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا انتخابات کے اعلان کے بعد ملک بھر میں سیاسی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اسی درمیان کانگریس نے انتخابی میدان میں اتارنے کے لئے اپنےامیدواروں کی ایک اور فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست میں آندھرا پردیش، اڈیشہ، بہار اور مغربی بنگال سمیت 17  لوک سبھاسیٹوں کے امیدواروں کے نام شامل ہیں۔ فہرست آندھرا کی 5، بہار کی 3، اڈیشہ کی 8 اور مغربی بنگال کی ایک سیٹ پر مشتمل ہے، جس میںبہار کے کشن گنج سے محمد جاوید، کٹیہار سے طارق انور، بھاگلپور سے اجیت شرما، اڈیشہ کے بارگڑھ سے سنجے بھوئی، سندر گڑھ سے جناردن، بولانگیر سے منوج مشرا اور کالاہانڈی سے دروپدی مانجھی، کندھمال سے امیر چندر نائک، بہرام پور سے رشمی رنجن پٹنائک ۔ مغربی بنگال منیش تمانگ کو دارجلنگ سیٹ سے امیدوار بنایا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مذکورہ فہرست کے ساتھ کانگریس نے اب تک اپنے 231 امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ مغربی بنگال میں لڑائی خاص طور پر دلچسپ ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کا حصہ رہنے کے باوجودد ترنمول سپریمو ممتا بنرجی نے ریاست کی تمام 42 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کر دئے ہیں۔ منیش تمانگ، جنہیں دارجیلنگ لوک سبھا سیٹ سے میدان میں اتارا گیا ہے، شمالی بنگال کے پہاڑی علاقوں کے جانے پہچانے لیڈر ہیں۔ انڈین گورکھا کنفیڈریشن کے قومی صدر منیش تمانگ گورکھا لینڈ تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ وہ صرف چار دن پہلے 28 مارچ کو کانگریس میں شامل ہوئے تھے۔ دہلی کانگریس ہیڈکوارٹر میں پارٹی کی رکنیت لینے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ میں مجموعی طور پر بھارت کو لیکر آگے بڑھنے کے لیے کانگریس میں شامل ہوا ہوں۔ پچھلے کئی سالوں سے ہماری گورکھا برادری نے بی جے پی کو وقت دیا، لیکن بدلے میں ہماری برادری کو دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ اس علاقے میں بی جے پی کے معاون کے طور پر جانے جاتے تھے اور اب جب وہ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں تو ان کا سیدھا مقابلہ موجودہ ایم پی راجو وشٹ سے ہوگا۔
اِدھر بہار میں بھی انتخابی بساط بچھ گئی ہے۔بر سر اقتدار این ڈی اے اور اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘ نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ جن لیڈروںٹکٹ ملنے کی امید تھی، لیکن فائنل لسٹ سے ان نام غائب ہو گیا ہے، اب وہ پارٹیاں بدلنے لگے ہیں۔ پارٹی بدلنے والے کئی لیڈروں کو تو ٹکٹ بھی مل گیا ہے۔ ایک ہی وقت میں، بہت سے لیڈر نئی ٹیم کی تلاش میں مصروف ہیں۔ایسا مانا جا رہا ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی بہت سے لوگ اپنی پارٹیاں بدل لیں گے۔پارٹی بدلنے کا تازہ معاملہ مظفرپور کے سیٹنگ ایم پی اجے نشاد کے طور پر سامنے آیا ہے۔وہ کل کانگریس میں شامل ہو گئے۔انھوں نے دہلی میں کانگریس کی رکنیت حاصل کی۔ اس بار بی جے پی نے مظفر پور سے اجے نشاد کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ایسے میں اجے نشاد نے ایک دن پہلے کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی سے ملاقات کی تھی۔اس کے بعد وہ منگل کو باضابطہ طور پر کانگریس میں شامل ہو گئے۔ بی جے پی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں شامل ہونے کے بعد اجے نشاد نے کہا کہ اگر کسی کو پھانسی کی سزا ہو تو اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے، لیکن ٹکٹ کاٹنے سے پہلے ان سے ایک بار بھی بات نہیں کی گئی۔  انہوں نے کہا کہ پارٹی انا سے نہیں چلتی، عوام کی حمایت سے چلتی ہے۔  اس موقع پر اجے نشاد کا کہنا تھا کہ اب وہ بہار میں کانگریس کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جیتے ہوئے تھے، لیکن ایک بار بھی بی جے پی لیڈروں نے مجھ سے بات نہیں کی اور ٹکٹ کاٹ دیا۔ بعد میں پوچھنے پر کہا گیا کہ آپ کی سروے رپورٹ آپ کے حق میں نہیں ہے۔ جب پچھلے الیکشن میں 4.50 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت کے بارے میں بتایا گیا تو بی جے پی لیڈروں نے کہا کہ یہ آپ کا ووٹ نہیں تھا، یہ اوپر والے کا ووٹ تھا۔چنانچہ اس بار کے الیکشن میںنے کسی کی انا کو توڑنے اور اپنی عزت دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تکبر کے مارے ہوئے لوگ سوشل میڈیا پر میرے  خلاف گندے تبصرے کر رہے ہیں۔عوام ہر چیز کا جواب دیں گے۔
  قابل ذکر ہے کہ دس سال تک بی جے پی نے اجے نشاد کو مظفر پور سے ایم پی بنائے رکھا تھا۔اس درمیان اجے نشاد نے کبھی بھی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی تعریف میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہیں کانگریس میں شامل ہوتے ہی اجے نشاد نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ڈالے گئے ایک پوسٹ میں بی جے پی صدر جئے پرکاش نڈا پر دھوکہ دہی کا الزام لگا یا ہے۔ تاہم عوام کے لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ عوام کو یہ منظر ہر الیکشن میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہار میں کانگریس کو نو سیٹیں ملی ہیں، لیکن اسے کئی سیٹوں پر لڑنے کے لئے مضبوط امیدواروں نہیں مل رہے ہیں۔  ایسی صورتحال میں اسے کچھ سیٹوں پر امپورٹڈ امیدواروں کو اتارنا پڑے گا۔ اس کی شروعات بی جے پی سے آئے ہوئے مظفر پور کے سیٹنگ ایم پی اجے نشاد سے ہونے والی ہے۔ویسے بہار میں کانگریس کو ابھی کچھ اور نئے چہروں کی تلاش میں ہے۔دوسری جانب راشٹریہ جنتا دل نے بھی اپنی کچھ سیٹوں پر مضبوط امیدواروں کے بحران سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے۔ اورنگ آباد میں ابھے کشواہا اور پورنیہ میں بیما بھارتی اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ویسے عوام پارٹی بدلنے والے لیڈروں کو کتنی عزت دیتے ہیں، یہ حقیت تو الکشن کے بعد ہی سامنے آ ئے گی۔
**********