عوامی رجحانات منزل کا پتہ بھی بتا سکتے ہیں

تاثیر،۱۹       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ کل اختتام پذیر ہو گئی۔ اس مرحلے میںبہار کی نوادہ، گیا، جموئی اور اورنگ آباد  سمیت ملک کی21 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 102  سیٹوں کے لئےووٹنگ کے ساتھ ہی 1625 امیدواروں کی قسمت ای وی ایم میں بند ہو گئی۔ ان میں 9 مرکزی وزراءبھی ہیں۔ ان وزراء میں سڑک ٹرانسپورٹ کے وزیر نتن گڈکری ناگپور سے، وزیر ماحولیات بھوپیندر یادو الور سے ، آیوش کے وزیر سربانند سونووال ڈبرو گڑھ سے ارتھ سائنس کے وزیر کرن رجیجو اروناچل ویسٹ سے ،   وزیر مملکت برائے قانون ارجن رام میگھوال بیکانیر لوک سبھا سیٹ سے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر مملکت جتیندر سنگھ، جموں و کشمیر کی ادھم پور سیٹ سے میدان میں ہیں۔کل کی ووٹنگ کے بعد جن دیگر وزراء کی قسمت ایم وی ایم میں مقید ہوئی ہے، ان میں وزیر مملکت برائےدیہی ترقیات سنجیو بالیان فگن سنگھ کلستے اور وزیر مملکت برائے داخلہ نسیتھ پرمانک شامل ہیں۔
اِدھر بہار میں موسم کے مزاج کی طرح انتخابی درجہ حرارت بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اسی دوران بی جے پی اتحاد اور آر جے ڈی اتحاد کے درمیان بیان بازی بھی بڑھ گئی ہے۔ بہار میں کئی سیٹوں پر دلچسپ مقابلہ ہے۔ ان سیٹوں میں سے ایک پاٹلی پترا سیٹ بھی ہے۔ اس سیٹ پر ایک بار پھر میسا بھارتی کا مقابلہ رام کرپال یادو سے ہے۔ یہ دونوں 2019 کے انتخابات میں بھی آمنے سامنے تھے۔نتیجہ رام کرپال یودو کے حق میں گیا تھا۔ رام کرپال یادو کو کبھی لالو پرساد یادو کے گھر کے فرد کی طرح ہوا کرتے تھے۔ اس وقت لوگ رام کرپال یادو اور میسا بھارتی کو ’’چاچا اور بھتیجی‘‘ کے نام سے بھی جا نتے تھے۔ سال 2014 میں پہلی بار چچا بھتیجی کی یہ جوڑی انتخابی میدان میں آمنے سامنے تھی۔ اس وقت بھی رام کرپال یادو نے میسا بھارتی کو شکست دی تھی۔ رام کرپال یادو نے 2014 میں ہی آر جے ڈی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔بی جے پی کے ٹکٹ پر پاٹلی پترا سے لوک سبھا پہنچنے کے بعد رام کرپال یادو کو مرکزی حکومت میں وزیر بھی بنایا گیاتھا ۔
چند دنوں پہلے تک بہار کے سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں بی جے پی اس بار رام کرپال یادو کو ٹکٹ دینے سے انکار کر سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دارالحکومت پٹنہ کے شہری علاقے کے ایک حصے کے علاوہ یہ سیٹ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رام کرپال یادو اپنے لوک سبھا حلقہ میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ تاہم 2019 کے مقابلے، 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں رام کرپال یاد و نے بڑی جیت درج کی تھی۔مودی حکومت کے 10 سال مکمل ہونے اور این ڈی اے کے حلیف نتیش کمار کے تقریباً 20 سال سے ریاست میں برسراقتدار رہنے کے بعد، کیا رام کرپال یادو کو ’’اینٹی انکمبنسی‘‘ یعنی حکومت مخالف رجحانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں رام کرپال کا دعویٰ ہے کہ ’’کوئی اینٹی انکمبنسی نہیں ہے۔ مودی پر لوگوں کا بھروسہ برقرار ہے۔ مودی نے ایمانداری سے کام کیا ہے۔ بہار مین اسٹریم میں نہیں تھا۔ مرکزی حکومت بھی ریاستوں کو آگے لے جانے کے لیے زیادہ پیسے دے رہی ہے۔ پہلے پیسے کی لوٹ مار ہوتی تھی۔ اب کام ہو تا ہے۔‘‘
رام کرپال یادو کو 2019 میں الیکشن جیتنے کے بعد وزیر نہیں بنایا گیا تھا۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پارٹی میں ان کی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے، لیکن اس سال پاٹلی پترا لوک سبھا سیٹ کے لئے ان کی امیدواری کے بارے میں جو منفی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں، اس کی ایک بڑی وجہ بہار میں سال 2020 میں ہو ئے اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی تھی۔پاٹلی پترا لوک سبھا میں 6 اسمبلی سیٹیں ہیں، لیکن بہار کے پچھلے اسمبلی انتخابات میں یہاں نہ تو بی جے پی اور نہ ہی جے ڈی یو کوئی سیٹ ہاتھ لگی۔ تمام سیٹیں اپوزیشن کے پاس چلی گئیں۔ 2020 کے  اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے دانا پور، منیر اور مسوڑھی سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ سی پی آئی ایم ایل نے یہاں پھلواری اور پالی گنج کی سیٹیں جیت لی تھیں۔ وہیں بکرم سیٹ کانگریس کے حصے میں آئی تھی۔
  قابل ذکر ہے کہ رام کرپال یادو پانچ بار لوک سبھا الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے گزشتہ 10 سالوں میں علاقے میں بہت سے کام کروائے ہیں۔ ان میں سڑکیں، بجلی کی فراہمی، آیوشمان کارڈ اور ضعیف العمری پنشن بھی شامل ہے۔  انہیں پورا یقین ہے کہ ان کی محنت کی وجہ سے وہ اس بار بھی الیکشن جیتیں گے۔ دوسری طرف آر جے ڈی امیدوار میسا بھارتی علاقے کے ووٹروں سے یہ جاننا چاہتی ہیں کہ ’’آپ لوگ پانچ کلو اناج چاہتے ہیں یا اپنے بچوں کا مستقبل چاہتے ہیں ؟ ‘‘ پاٹلی پترا سیٹ کی تاریخ کی بات کریں تو میسا کے والد لالو پرساد یادو خود یہاں سے الیکشن ہار چکے ہیں۔ 2008 کی حد بندی کے بعد پہلی بار 2009 میں پاٹلی پترا سیٹ پر لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تھے۔ اسی سال راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد یادو یہ سیٹ جے ڈی یو کے رنجن پرساد یادو سے ہار گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاٹلی پترا لوک سبھا حلقہ میں یادو کی بڑی تعداد کے باوجود لالو پرساد یادو اور ان کے خاندان کو اس سیٹ پرلگاتار تین انتخابات سے شکست کا سامنا ہے۔ تاہم میسا بھارتی کا دعویٰ ہے کہ ان کے سامنے چیلنج عوامی مسائل کے سوا کچھ نہیں ہے اور وہ انھی مسائل پر الیکشن لڑ رہی ہیں اور اس بار انھیں کامیابی ضرور ملے گی۔
  سال 2019 کے انتخابی اعداد و شمار کے مطابق، پاٹلی پترا لوک سبھا علاقے میں تقریباً 20 لاکھ ووٹر ہیں۔ یادووں کے بعد اس سیٹ پر بھومیہار، برہمن، کرمی، مسلم اور دلت ووٹروں کا غلبہ ہے۔ووٹروں میں سے جہاں کچھ لوگ پی ایم نریندر مودی کے نام پر رام کرپال یادو کو ووٹ دینے کی بات کرتے ہیں تو خواتین ووٹروں کا کہنا ہے’’ ہمیں حکومت سے راشن ضرور مل رہا ہے، لیکن اس بار ہم چاہتے ہیں کہ میسا بھارتی جیتیں کیونکہ وہ گاؤں کی بیٹی ہیں، اگر وہ جیت جاتی ہیں تو ہم جیت جائیں گے۔ ‘‘ واضح ہو کہ اس سیٹ پر گزشتہ تین لوک سبھا انتخابات میں جیت یا ہار کا مارجن بہت بڑا نہیں رہا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں اس سیٹ پر صرف 56 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔  پاٹلی پترا سیٹ پر لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے میں یعنی یکم جون کو ووٹنگ ہو نی ہے۔تب تک ممکن ہے عوامی رجحانات منزل کا پتہ بھی بتانے لگیں !
**************