عوام کے دلوں میں بیٹھے خطرے کاخاتمہ ضروری

تاثیر،۲۶       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں 19 اپریل سے ہی جمہوری تیوہار منایا جا رہا ہے۔کل اس تہوار کا دوسرا مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوںکی 88 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کے سلسلے میں ووٹرز کا فیصلہ ای وی ایم میں بند ہو گیا۔ اس مرحلے میں جن 88 سیٹوں پر کل ووٹنگ ہو ئی تھی، ان میں بی جے پی کے پاس نصف سے زیادہ یعنی 52 سیٹیں ہیں، جب کہ کانگریس کے پاس 22 سیٹیں ہیں۔جن 13 ریاستوں میں کل ووٹنگ ہوئی ان میں بہار بھی شامل تھا۔ بہار کی 40 سیٹوں پر مشتمل پانچ لوک سبھا سیٹوں مثلاََ کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ، بھاگلپور اور بانکا کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ ان پانچ سیٹوں کے لئے کل 50 امیدوار میدان میں تھے۔کشن گنج اور بھاگلپور لوک سبھا سیٹوں پر سب سے زیادہ 12 امیدوار  تھے ۔بانکا میں 10 اور کٹیہار میں9 امیدوار میدان تھے۔ پورنیہ سیٹ پر کم از کم سات امیدوار اپنی قسمت آزما رہے تھے۔ پپو یادو کی وجہ سے اس سیٹ پر پورے ملک کی نظر ہے۔ ان سبھی سیٹوں پر 2019 کے مقابلے میں اس بار نسبتاََ کم پولنگ ہوئی ہے۔
اِدھر الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 13 ریاستوں میں 88 سیٹوں پر ووٹنگ میں اپنا گراف لگاتار بڑھا رہی ہے۔ سیاسی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ 2009 سے 2019 کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ بی جے پی کے لیے بہتر رہا ہے۔ تاہم اس بار ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں سیاسی ایکویشن بدل گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بدلے ہوئے سیاسی ماحول  میں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار اپنی پوزیشن کو بر قرار رکھنا ایک بڑی چنوتی بنی ہوئی ہے۔88 سیٹوں پر انتخابات کے دوسرے مرحلے میں نہ صرف این ڈی اے بلکہ اپوزیشن اتحادکے لیے بھی سیاسی میدان میں اپنی موجودگی مضبوطی سے درج کروانا آسان نہیںہے۔ سنٹرل الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی 2009 سے 2019 کے درمیان ہونے والے تین انتخابات میں اپنا گراف لگاتار بڑھا تی آ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 88 میں سے 26 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ وہیں 2014 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹوں کی تعداد 42 ہو گئی ۔ جبکہ 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پچھلے انتخابات کے مقابلے 10 زیادہ سیٹیں یعنی 52 سیٹیں جیتی تھیں۔  دوسرے مرحلے کی 88 سیٹوں پر، بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2009 سے 2019 کے انتخابات میں اپنی سیٹوں کی تعداد دوگنی کر لی تھی۔ اب، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اس گراف کو مزید آگے لے جانا واقعی ایک بڑا چیلنج ہے۔
  جس طرح پچھلے انتخابات کے دوران ووٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا گراف لگاتار بڑھتا رہا، اسی طرح کانگریس کا گراف بھی گرتا رہا۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں کانگریس نے 37 سیٹیں جیتی تھیں۔  وہیں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس 17 سیٹوں کے نقصان کے ساتھ 20 سیٹوں پر پہنچ گئی۔ جب 2019 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ سخت مقابلہ ہوا تو کانگریس دو سیٹوں سے مزید کھسک گئی۔ یعنی 2019 میں کانگریس کو صرف 18 سیٹیں ملی تھیں۔ تین انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹیں بڑھتی رہیں اور اس نے اپنی سیٹیں دوگنی کر دیں۔ وہیں کانگریس کا گراف لگاتار گرتا رہا۔ یہ ان تین انتخابات میں نصف نشستوں تک پہنچ گئی۔
سیاسی مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ مسلسل تین انتخابات میں جس طرح اپنا گراف بڑھایا ہے، اسے برقرار رکھنے کا بڑا چیلنج اسے درپیش ہے۔ یہ واضح ہے کہ گزشتہ انتخابات اور اس بار کے انتخابات کے درمیان سیاسی تانے بانے بدل گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی بلکہ کانگریس کے ساتھ بھی سیاسی اتحاد کی تصویر بدل گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، ان کی سب سے بڑی اتحادی شیوسینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودگی مہاراشٹر میں ہی تھی۔ مہاراشٹر میں سیاسی اتھل پتھل میں اس بار شیوسینا کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی ہے۔ پنجاب میں اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی الگ ہو چکے ہیں۔  وہیں اتر پردیش میں گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ایس پی اوربی ایس پی کا اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔ جہاں بی ایس پی اس الیکشن میں الگ رہی ہے وہیں کانگریس ایس پی کے ساتھ آگئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کئی پارٹیوں کے ساتھ مل کر جگل بندی کی ہے۔ لیکن اس طرح کے بدلے ہوئے سیاسی حالات میں بہت سے چیلنجز ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دوسرے مرحلے کے انتخابات میں بی جے پی نے 52 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس وقت ووٹنگ فیصد کا تناسب 60 کو چھو رہا تھا۔ اس باربیشتر سیٹوں پر ووٹ فیصد میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی ہے۔اس کے علاوہ پچھلے انتخابات میں ووٹروں کاجھکاؤ جس طرح بی جے پی کی طرف تھا، اس میں کمی آئی ہے۔ اس بار کے انتخابات میںبیشتر ووٹر مذہبی منافرت کی چناوی سیاست کو صاف صاف نشانہ بناتے ہوئے دیکھے گئے۔ بہار میں بھی بدلاؤ کا مزاج دیکھا گیا۔سیاسی مبصرین کی مانیں تو انتخابات کے باقی مراحل میں چناوی  مزاج کی تصویر کچھ اور صاف ہوتی چلی جائے گی۔
دریں اثنا ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے درمیان، بی جے پی کے زیرقیادت این ڈی اے پر تنقید کرتے ہوئے، آنجہانی سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے بیٹے اور کانگریس لیڈر انیل شاستری کا کہنا ہے کہ اس بار عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ مرکز میں حکمراں پارٹی کو اگر تیسری مدت کے لیے ووٹ دیا گیا تو وہ آئین کو تبدیل کر دے گی۔کل جمعہ کو اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انیل شاستری نے کہا تھا’’ لوگوںمیں یہ خوف ہے کہ اگر بی جے پی کو دوبارہ ووٹ دیا گیا تو ملک کے آئین میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ایسے میں بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ اس خوف کی حقیقت کیا ہے۔ملک کے آئین کے حوالے سےعوام کے دلوں میں بیٹھے خطرے کو ختم کرنا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔‘‘