پپو یادو کو فائدہ پہنچ سکتا ہے

تاثیر،۲۲       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

بہار کی پورنیہ لوک سبھا سیٹ پر’’ این ڈی اے‘‘ بنام’’ انڈیا‘‘ کی لڑائی میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ڈٹے راجیش رنجن عرف پپو یادو کی امیدواری روز اوّل سے ہی موضوع  بحث بنی ہوئی ہے۔ پپو یادو 1990 کی دہائی میں اپنے اِس آبائی لوک سبھا سیٹ سے تین بار نمائندگی کر چکے ہیں۔ تمام سیاسی داؤ پیچ کے درمیان اس بار پورنیہ لوک سبھا سیٹ پر پپو یادو کی موجودگی نے این ڈی کی جانب سے جے ڈی یو امیدوار سنتوش کشواہا اور انڈیا کی جانب سے آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی کے درمیان کی لڑائ کو عام طور پر سہ رخی بنا دیا ہے۔ حالانکہ جب سے آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کو اپنے ووٹرز سے یہ کہنے کی نوبت آ گئی ہے کہ اگر آپ آر جے ڈی کو ووٹ نہیں دے سکتے ہیں تو این ڈی اے کو دے دیجئے ، تب سے ایسا لگنے لگا ہے کہ پورنیہ سیٹ پر اصل لڑائی جے ڈی یو کے امیدوار سنتوش کشواہا اور آزاد امیدوار پپو یادو کے درمیان ہی ہے۔
  قابل ذکر ہے کہ پپویادو دو بار آزاد امیدوار کے طور پر اور ایک بار سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے امیدوار کے طور پر پورنیہ سیٹ کی نمائندگی کر چکے ہیں۔اِدھر جے ڈی یوکے رکن پارلیمنٹ سنتوش کشواہا ’’ہیٹ ٹرک ‘‘ کے مقصد سے میدان میں ہیں۔ جبکہ جے ڈی یو ایم ایل اے بیما بھارتی، جو پارٹی بدل کرآر جے ڈی میں شامل ہو گئی ہیں اور آر جے ڈی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔دوسری جانب کانگریس کی راجیہ سبھا ایم پی رنجیت رنجن کے شوہر پپو یادو ، جنھوںنے حال ہی میں اپنی جن ادھیکار پارٹی کو اس امید پر کانگریس میں ضم کر دیا تھا کہ انہیں پورنیہ سے ٹکٹ مل جائے گا، لیکن ان کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ’’انڈیا‘‘ کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے دوران پورنیہ لو سبھا سیٹ آر جے ڈی کے پاس چلی گئی۔ چنانچہ پپو یادو کوآزاد امیدوار کے طور پر اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنا پڑا تھا۔ پپو یادو کو امید تھی کہ ان کی اہلیہ کی وجہ سے کانگریس کی جانب سے انھیں آف دی رکارڈ حمایت ملے گی، لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ بلکہ ہو یہ گیا کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ہفتہ کو بھاگلپور میں اپنی انتخابی ریلی کے دوران لوگوں سے بیما بھارتی کی حمایت کرنے کی اپیل کر دی۔
  اِدھر مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ پپو یادو پچھلے ایک سال سے پورنیہ لوک سبھا علاقے کے رائے ہندگان کے درمیان زور و شور سے کام کر رہے ہیں۔ اس مہم سے علاقے میں ا ن کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ مقبولیت کا گراف اتنا اونچا ہے کہ اس سیٹ کے سیٹنگ ایم پی   اور جے ڈی یو امیدوار سنتوش کشواہا کو انٹی انکمبنسی کی مار بھی جھیلنی پڑ سکتی ہے۔جبکہ خبروں میں رہنے کی مہارت رکھنے والے پپو یادو عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے لئےہمیشہ عوام کے درمیان بنے ہوئے ہیں۔ اس دوران موقع بموقع ٹکٹ نہیں ملنے کو اپنی تذلیل بتاکر    رونے بھی لگتے ہیں۔ پپو یادو، جو سماج کے تمام طبقوں کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، بی جے پی کے اونچی ذات کے لوگوں کے ساتھ آر جے ڈی کے سماجی تانے بانے ’’ایم وائی‘‘ اور پس ماندہ و دلت طبقہ کے لوگوں کی حمایت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب بیما بھارتی، جو پورنیہ ضلع کی روپولی اسمبلی سیٹ سے پانچ بار نمائندگی کر چکی ہیں، گنگوٹا ذات سے آتی ہیں اور اس ذات کی اچھی موجودگی ہے۔  بھارتی کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے دن تیجسوی یادو بھی موجود تھے۔ مگر اب وہی تیجسوی یادو چار بار کے ایم ایل اے اور پانچ بار کے ایم پی رہ چکے پپو یادو سےاتنا جلے بھنے ہیں کہ ان کو شکست دینے کی کھلے عام لوگوں سے اپیل کی ہے اور بھی اس انداز میں کہ اگر آپ آر جے ڈی امیداوار بیما بھارتی کو ووٹ نہیں دے سکتے تو جے ڈی یو کو دیدجئے مگر کسی بھی قیمت پر تیسرے آدمی کو نہیں دیجئے۔ انہوں نے نام تو کسی کا نہیں لیالیکن، نشانہ پپو یادو پر ہی تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پپو یادو کو بھی انہی ووٹروں پر بھروسہ ہے، جن سے آر جے ڈی امیدوار بیما بھارتی امید لگائے بیٹھی ہیں۔  مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ پپو کو یادو برادری سے بھی کافی تعاون مل رہا ہے۔ مسلمان ا بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر اپوزیشن کے ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو ظاہر ہے اس کا سیدھا فائدہ این ڈی اے امیدوار سنتوش کشواہا کو ہوگا۔ سنتوش تیسری بار میدان میں ہیں۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جے ڈی یو نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار کی اور 2014 میں انہیں اپنا امیدوار بنایا تو انہوں نے مودی لہر کے باوجود جیت کا پرچم لہرایا تھا۔ دوسری بار 2019 میں ان کی جیت آسان ہوگئی تھی۔ اس وقت جے ڈی یو نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لالو پرساد یادو یا تیجسوی یادو کیوں نہیں چاہتے ہیں کہ پپو یادو لوک سبھا پہنچیں ؟  اس سوال کا جواب سیاسی مبصرین اور سیاسی طور پر با شعور عوام اپنے اپنے طور پر دے رہے ہیں۔کچھ لوگ اسے لالو پرساد یادو اور پپو یادو کے درمیان پرانی سیاسی مخاصمت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تیجسوی یادو کو ’’ایم وائی‘‘ پر ایک چھتر راج دلانےکے مقصد سے لالو یادو نہیں چاہتے ہیں کہ پپو یادو سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔حالانکہ  2024 کے لوک سبھا انتخابات کے اعلان کے بعد پپو یادو نے لالو خاندان کے قریب آنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نےانڈیا اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کر دیا۔مگر لالو یادو کے مزاج میں تبدیلی نہیں آسکی۔چنانچہ پپو یادو کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترنا پڑا۔
  ابھی بہار کے تقریباََ تمام انصاف پسند لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ اپنے خاندان کے علاوہ لالو پرسا نے کبھی بھی اپنی پارٹی کے کسی مسلمان لیڈر یا اپنی برادری کے کسی دوسرے لیڈر کو سیاسی طور ابھرنے نہیں دیا۔ لالو کی اس حکمت عملی کا شکار پپو یادو بھی ہو گئے ہیں۔ لالو پرساد کسی کو اپنے بیٹے تیجسوی کے برابر کھڑے ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتے ہیں۔ لالو کی اسی حکمت عملی کا شکار کنہیا کمار کو بھی ہونا پڑا ہے۔ کنہیا کمارنے 20219 کے لوک سبھاانتخابات میں بیگوسرائے سے سی پی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا ۔ اب وہ کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کو بھی بڑی چالاکی سے بہار سے باہر پھینک دیا گیا۔ کنہیا کمار کا  پتّہ کاٹنے کے لیے لالو نے پہلے ہی بیگوسرائے سیٹ سی پی آئی کو دے دی تھی۔ نتیجے میں کنہیا کمار کو دہلی سے الکشن لڑنا پڑ رہا ہے۔ایسے میں ووٹنگ سے چند دنوں قبل تیجسوی یادو کا پورنیہ کے لوگوں سے یہ کہنا کہ اگر آپ آر جے ڈی کو ووٹ نہیں دے سکتے تو جے ڈی یو کو ہی دیجئے، لیکن کسی تیسرے آدمی کو نہیں دیجئے، پپو یادو کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ واضح ہو کہ پورنیہ لوک سبھا سیٹ کے لیے 26 اپریل کو ووٹنگ ہونی ہے۔