کسی کے بھی دعوے میں دَم نہیں ہے

 

اتر پردیش میں انتخابات کے پہلے مرحلے میں آٹھ سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ابھی سے ہی اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا پہلا شو  فلاپ رہا ہے۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے کی پولنگ میں’’انڈیا‘‘ اتحاد زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے والا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر چودھری نے تمام سیٹوں پر جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے ایس پی اور’’انڈیا‘‘ اتحاد کے جھوٹے پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے اور اس لئے کر دیا ہے کہ ان کے وعدے اور اعلانات سب جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ وہ کوئی بھی ڈاکٹر لے آئیں، اب کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں، ایس پی اتحاد مرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ یوپی کے انتخابات پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ پہلے مرحلے کی تمام 8 سیٹوں پر سخت مقابلہ ہے۔ بی جے پی، سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کو 2019 کے انتخابات میں جیتی ہوئی سیٹوں کو بچانا مشکل ہو سکتا ہے۔کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کو نقصان ہو سکتا ہے۔ جن سیٹوں پر الیکشن ہوئے ہیں اس میں زیادہ تر سیٹیں مغربی یوپی کی ہیں۔  2019 میں ان نشستوں پر اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس لیے کم ووٹنگ سے اپوزیشن کو نقصان ہو سکتا ہے۔ مغربی یوپی میں جاٹ ووٹر کا بڑا رول ہے،جو پچھلے انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ نہیں آئی تھی، لیکن اس بار راشٹریہ لوک دل بی جے پی کے ساتھ میدان میںہے۔ اس لئے جاٹ ووٹر اس بار بی جے پی کے حق میں ہیں۔ ووٹنگ میں کمی بی جے پی کو کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ پہنچانے والی ہے۔
اِدھراندرونی جھگڑوں اور ٹکٹ کٹوتی کے سوال پرماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی میں، الیکشن بی جے پی امیدواروں سے زیادہ پی ایم نریندر مودی کے چہرے پر لڑے جاتے ہیں۔ظاہر ہے اس کا اثر تو ہوگا ہی۔دوسری طرف چند لوگوں کا ماننا ہے کہ ووٹنگ کا کم فیصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں میں سرد مہری ہے۔ ووٹنگ کو لے کر جو جوش و خروش 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دیکھا گیا تھا، وہ اس بار 2024 کے انتخابات میں  دور دور تک نہیں ہے۔ ووٹنگ فیصد کم ہونے کی وجہ سے لوگوں نے حکومت پر اپنے عدم اطمینان کو واضح کر دیا ہے۔  تاہم جس طرح ذات پات کے تانے بانے کا خیال رکھتے ہوئے وہاں امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی قدرے مضبوط پوزیشن میں ہے اور اگر دو تین سیٹیں چھوڑ دی جائیں تو باقی سیٹوں پر بی جے پی نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ  پہلے مرحلے ’’انڈیا‘‘ اور ’’این ڈی اے‘‘ کے درمیان 5-3 یا 6-2 سے ہارجیت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ بی جے پی کو مظفر نگر، پیلی بھیت اور کیرانہ سیٹوں پر نقصان ہو سکتا ہے۔ ورون گاندھی کو پیلی بھیت سیٹ سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے سردار برادری اپوزیشن میں شامل ہو گئی ہے۔ویسے بہوجن سماج پارٹی کہیں بھی لڑائی میں نہیں ہے۔ بی ایس پی نے صرف ووٹ مانگنے کا کردار ادا کیا ہے۔   چنانچہ بی جے پی فائدہ طے ہے۔ مغربی یوپی میں، جہاں مسلم اکثریتی سیٹیں ہیں، وہاں بی ایس پی بازی مار سکتی ہے۔
  اِدھرسماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں بی جے پی کا فلاپ شو تھا۔جو روایتی ووٹ  بی جے پی کو ملتا تھا وہ کھل کر اس کے خلاف ہے۔ ہر لوک سبھا میں پنچایتیں ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کو ہرانے کے فیصلے لئے جا رہے ہیں۔ جبکہ یوپی بی جے پی کے صدر بھوپیندر سنگھ چودھری کا کہنا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ کے رجحانات سے یہ واضح ہے کہ ہر اعتبار سے ہاتھ اور سائیکل کی شکست ہوئی ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد اتر پردیش کی تمام 8 سیٹوں پر کمل کھل گیا ہے ۔ بی جے پی کی حمایت کرنے والے چند مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار مسلمانوں نے بی جے پی کے حق میں بھاری ووٹ ڈالے ہیں۔ دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے شہری ووٹر کو بی جے پی کا حامی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس بار شہری ووٹر بھی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک نہیں گئے۔ اس کے علاوہ کھشتریوں کی ناراضگی بھی بی جے پی کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ کسان بھی بی جے پی سے ناراض ہیں اور اینٹی انکمبنسی کا بھی اثر ہو سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جن آٹھ سیٹوں پر مقابلہ ہوا تھا، ان میں سے تین پر بی جے پی کا ہی قبضہ ہے۔حالانکہ اس بار بی جے پی کے لیے ان تینوں سیٹوں کو بھی بچانا مشکل ہوگا۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق مغربی یوپی کی تمام آٹھ سیٹوں پر سخت مقابلہ ہے۔ تاہم، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ اس بار بی جے پی صفر پر آجائے۔ہاں ، یہ ضرور ہے کہ سینی، ٹھاکر اور مسلمانوں کی ناراضگی بی جے پی کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔
  واضح ہو کہ 2019 میں ان 8 سیٹوں میں سے بی جے پی نے مظفر نگر، کیرانہ اور پیلی بھیت سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ ایس پی کے اعظم خان نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں رام پور سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی، لیکن بی جے پی نے 2022 میں اس سیٹ پر ضمنی انتخاب جیت لیا تھا۔ اس طرح فی الحال بی جے پی لوک سبھا کی 4 سیٹوں پر قابض تھی۔ وہیں سہارنپور، نگینہ اور بجنور سے بی ایس پی نے اور 2019 کے انتخابات میں رام پور اور مرادآباد سیٹوں سے ایس پی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2019 میں ایس پی اوربی ایس پی اتحاد نے چناؤ لڑا تھا۔ اس بار بی ایس پی تنہا الیکشن لڑ رہی ہے۔ وہیں ایس پی اور کانگریس’’انڈیا‘‘ اتحاد سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے ساتھ آر ایل ڈی کے آنے سے پہلے یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ مغربی یوپی میں این ڈی اے اتحاد مزید مضبوط ہوگا، لیکن زمینی حقائق ابھی جو اشارہ دے رہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہاں کسی کے بھی دعوے میں کوئی دَم نہیں ہے۔