ہندوستانی زبانوں کے مرکز جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر طارق چھتاری کا توسیعی خطبہ

تاثیر،۲۳       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

جدیدیت میں  فلیش بیک کی تکنیک میں  تجریدی افسانے کا تجربہ کیا گیا :پروفیسر طارق چھتاری
(نئی دہلی/پریس ریلیز) جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار انڈین لینگویج میں پروفیسرطارق چھتاری کے توسیعی خطبے کی تقریب منعقد کی گئی۔انہوں نے اپنے خطبے کا آغاز فکشن میں مختلف ادبی نظریات سے کیا۔ ترقی پسند تحریک کے موضوع پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب 1960 کے بعد باقاعدہ طور پر جدیدیت کے رجحان میں فرد کی شخصیت پر زود دیا گیا ۔تو جدیدیت  میں بہت سے تجربات کیے گئے ،جن میں   علامت، پلاٹ کا نہ ہونا،کہانی کا نہ ہونا وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح جدیدیت میں  فلیش بیک کی تکنیک میں  تجریدی افسانے کا تجربہ ہوا ہے ،اس کا تعلق اسلوب سے ہے۔اسی وجہ سے جدیدیت میں تجریدیت مصوری کی تقلید سے آئی نیز نفسیاتی مسائل  پر بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ  ہم عصمت کے افسانے “چوتھی کا جوڑا “میں بھی علامتی انداز دیکھ سکتے ہیں جب حمیدا اپنے ماضی کو دیکھتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ  ترقی پسند تحریک میں بھی جدید عناصر موجود  تھے۔ جیسے یہ جملہ “دوسروں کی خوشی  میں  خود شریک ہو کر ہی اپنے غم کو بھلایا جاسکتا ہے ۔”اسی طرح پریم چند کی کہانیوں میں بھی جدیدیت کے عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ہم نے پریم چند کی کہانیوں سے  انصاف نہیں کیا ۔جدیدیت میں مایوسی پر کہانیاں ختم ہوتی ہے ۔فرد کی ذات کا مسئلہ،علامت کا تعلق بنیادی عناصر ہیں۔سریندر پرکاش کا افسانہ “تلقارمس “تجریدیت کا افسانہ ۔بجوکا پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ سریندر پرکاش کا افسانہ “تلقارمس “تجریدیت زدہ  افسانے میں سینکڑوں مسائل ہیں۔ اس افسانے میں کوئی فل سٹاپ نہیں ہے ۔اسی لیے اس افسانے کو ایک مکمل جملہ بھی  کہا جاتا ہے۔مابعد جدیدیت کو انہوں نے تیسری آواز کا نام دیا۔قرۃ العین حیدر کی کہانی” پت جھڑ کی آواز “کا تجزیہ  بھی انھوں نے  پیش کیا ۔ مابعد جدیدیت میں آرکی ٹیکچر کی تقلید کی  گئی ہے جس میں فنون لطیفہ کا سا انداز ملتا ہے ۔اس میں کوئی ایک اصول نہیں ہے ۔اس نظریے نے کسی بھی عناصر سے انکار بھی نہیں کیا ۔پھر انہوں نے بین المتونیت پر گفتگو کی ۔یہاں  موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے اصول کے پابند نہیں رہے۔پروگرام کی صدارت کر رہے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے سینٹر میں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے طلبہ کے لیے کارآمد اور مفید باتیں کی نیز پروفیسر موصوف کی ادبی خدمات کا ذکر کیا۔جب کہ ڈاکٹر نصیب علی نے پروفیسر طارق چھتاری کی خدمت تعریفی کلمات پیش کیا اور ڈاکٹر رشی کمار شرما نے شکریہ کی رسم ادا کی۔اس موقع پر سینیٹر کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کے علاوہ طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔