یہ بہت بڑا صدقہ اور بھلائی کا کام ہے

تاثیر،۱۸       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوا اوربڑی تیزی سے ہمارے درمیان سے رخصت بھی ہو گیا۔ یہ مہینہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایمانی اور عملی طور پر عروج اور بلندی عطا کرتا ہے ۔ان میں وہ یقین اور ایمان پیدا کرتا ہے ،جو ان کا عظیم سرمایہ ہے اور جو اسلام کو مطلوب ہے ۔ماہ رمضان عملی طور پر بھی مسلمانوں میں وہ اسپرٹ پیدا کرتا ہے، جسے بعد میں اگر جاری رکھا جائے تو ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں وہ راحت نصیب ہوگی، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔مگریہ ہمارا المیہ ہے کہ رمضان المبارک میں جس جذبے کے ساتھ عبادت و ریاضت کی جاتی ہے، بعد میں وہ جذبہ یکسر سرد اور سست پڑ جاتا ہے ۔نتیجتاََمسجدیں ویران ہوجاتی ہیں ،چٹائیاں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں ،قمقمے اتار دئیے جاتے ہیں اور اب پرانے نمازیوں کی وہی گنی چنی چند صفیںباقی رہ جاتی ہیں۔ حالانکہ رمضان المبارک کا مطلب و مقصد ایسا قطعی نہیں ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے۔ یعنی انسان کا دل ، اس کی سوچ، اس کی سمجھ ، اس کا انداز اور اخلاق وکردار سب کچھ اس طرح بدل جا نا چاہئے کہ رمضان کے بعد وہ ایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائے، اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوجائے۔اگر اپنی زندگی میں ایسا کچھ ہوا تو سمجھنا چاہئے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پالیا ورنہ بظاہر رمضان کا مہینہ ہم نے پایا اور ہمیں کچھ دئے بغیر وہ ہم سے رخصت ہوگیا ، تو وہ ہمارے لئے سب سے بڑی مایوسی کا ذریعہ اور محرومی کا سبب ہے ۔

رمضان المبارک میں ایک روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس پختہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سخت دھوپ اور گرمی کے باوجود وہ پانی پینے کی غلطی نہیں کرتا ۔عمل کے اعتبار سے جیسا بھی ہومگر روزہ کی حالت میں وہ صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کو بڑی بشاشت کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ اور صرف اس لئے برداشت کرتا ہے کیوں کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ رمضان المبارک کا یہ پیغام ہے کہ جس طرح اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا جس شدت کے ساتھ احساس تھا، اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس موجزن رہے۔ اگر یہ کیفیت دل میں پیدا ہوجائے تو یقیناََ اس میں اچھے، برے اور حرام وحلال کی تمیز پیدا ہو گی۔کسی کی دل آزاری سے وہ کوسوں دور رہے گا۔دل و دماغ ہمیشہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی جانب راغب ہوگا۔ وہ تمام منکرات سے محفوظ رہے گا ۔رسول اکرم ﷺکی تمام محنتوں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ ہر انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے ،وہ عرش کا مالک ہے اس کا کوئی ثانی اور نظیر نہیں ہے،اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا ‘اس کی بندگی میں ہی دنیا وآخرت کی بھلائی مضمر ہے ۔رمضان المبارک کا بھی یہی مقصد قرآن نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر۔ 183میں بیان کیا ہے۔ روزہ دار نے اگر اس مقصد کو پالیا تو گویا شریعت کے اصل مقصد کو اس نے پالیا اور اب وہ ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہوگیا۔

رمضان المبارک میں در اصل اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ جس طرح پورے مہینے شریعت کی پابندی کی گئی ، ویسے ہی رمضان کے بعد بھی شریعت کا پابند رہا جائے۔یعنی ماہ رمضان کا تقاضہ ہے کہ ممنوع عمل کر نے کی سوچ ذہن میں پیدا ہوتے ہی یہ احساس بیدار ہو جائے کہ رمضان میں جس طرح ممنوعات سے خود کو روک رکھا گیا، ویسے ہی رمضان کے بعد بھی تمام نا جائزکاموں سے بالکل رک جانا ہے۔ رمضان کے بعد بھی قرآن کریم کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی عادت بر قرار رہنی چاہئے۔ انشاء اللہ اس سے کام میں برکت پیدا ہوگی اور مصائب ومشکلات سے ہمیشہ محفوظ رہیںگے۔
بلا شبہ یہ قر آن کریم اصولِ حیات اور تمام قوانین کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ جب تک اس کے ترجمہ اور معانی ومفہوم پر ہم غور نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کی شا نِ رفعت کا ہمیں علم نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ تراجم وتفاسیر کی مددسے اس بات کی مسلسل کوشش ہوتی رہنی چاہئے کہ اپنے رب کے مقصود کو ہم پائیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کریں ۔ مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان رمضان کے بعد پورے سال قرآن کو چھوتے تک نہیں ہیں۔بہت سے مسلمان قرآن پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔بلا شبہہ یہ روّیہ قرآن سے بے اعتنائی اور مجرمانہ غفلت شعاری کا نتیجہ ہے ۔

رمضان المبارک کا مہینہ ہمدردی وغمخواری کا بھی ہے ۔عام طور پر مسلمان اس مہینے میں محتاجوں ‘مسکینوں او ر دیگر ضرورتمندوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔ان کو اپنے افطار وسحر میں شامل رکھتے ہیں،انکی دعوت کرتے ہیں اور حتی الامکان ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ ہمدردی کا یہ جذبہ رمضان کے بعد بھی باقی رہنا چاہئے ۔اگر عام دنوں میں بھی پاس پڑوس کے محتاجوں اور بیکسوں کی خبر گیری ایمانداری کے ساتھ کی جاتی رہے تو یقیناََ کسی پڑ و سی اور اس کے بال بچوں کو کبھی بھوکا نہیں سو نے کی نوبت نہیں آئے گی۔اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہے اور اس کے پاس دوا و علاج کے پیسے نہیں ہیں تو پڑوس کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کے دوا وعلاج کا انتظام کریں یا کم از کم علاج و معالجہ میں ہاتھ بٹائیں۔ ماہ رمضان میں دعوت افطار کے نام پر فوڈ فسٹیول منانے والوں کو چاہئے کہ اپنے پڑوس کے کسی غریب ، بیمار اور لاچار شخص کا پتہ کریں اور اس کے زخم پر مرہم رکھنے کی کو شش کریں ۔یہ ہماری اور آپ کی شرعی ذمہ داری ہے کہ خاموشی کے ساتھ ایسے افراد کی مدد کریں ، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔بہت سے لوگ ناگہانی مصائب کے شکار ہوجاتے ہیں ان کو دیکھ کر دل میں غمخواری کے جذبات کا پیدا ہونا رمضان کا اہم پیغام ہے ۔غرض رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلقِ خدا پر شفقت ،غرباء پر رحم اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی کو شش جاری رہے اور یہ مزاج کبھی ختم نہ ہو۔یہی رمضان المبارک کا اصل پیغام اور اس کے تقاضے ہیں ۔یقین جانیں یہ بہت بڑا صدقہ اور بھلائی کا کام ہے ۔
**************