تاثیر،۱۰ اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر بی جے پی کے ساتھ ساتھ این ڈی اے کے سبھی لیڈر اور کارکنان نے ’’ اس بار 400 پار‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے مشن کو اپنے اہم ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے،لیکن ملک کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ اتنا بڑا ہدف صرف نعروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ کچھ ریاستوں میں این ڈی اے کی حلیف جماعتوں میں سیٹوں کی تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے دیگر حلیف آٹھ ریاستوں اور شمال مشرقی خطے میں لگ بھگ 100 لوک سبھا سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
این ڈی کی حلیف جماعتوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تجزیہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے بہار میں اپنے اتحادیوں جے ڈی یو، ایل جے پی (رام ولاس)، آر ایل پی اور ایچ اے ایم کو 23 سیٹیں دی ہیں۔ 2019 میں، RLP آر ایل پی اور ایچ اے ایم اتحاد کا حصہ نہیں تھے۔ وہیں بہار میں بی جے پی کے اتحادیوں نے 23 میں سے 22 سیٹیں جیتی تھیں۔ بی جے پی کے حلیفوں کو 2019 کے نمبروں کو دہرانے کا چیلنج درپیش ہے۔ بہار کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاست اتر پردیش بھی 2019 کے رکارڈ کو دہرانا آسان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ یوپی سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس بار بی جے پی نے یوپی میں اپنا حصہ بڑھایا ہے۔ بی جے پی خود 80 میں سے 75 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، جب کہ آر ایل ڈی اپنا دل کو دو اور ایس بی ایس پی کو ایک سیٹ دے رہی ہے۔ جھارکھنڈ میں، 2019 کی طرح، پارٹی نے اتحادی اے جے ایس یوکو ایک سیٹ دی ہے۔ ریاست میں ابھی تک کسی سینئر لیڈر نے انتخابی مہم نہیں چلائی ہے۔
آندھرا پردیش میں، جہاں بی جے پی 2019 میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی، پارٹی ٹی ڈی پی اور جن سینا کے ساتھ اتحاد میں چھ سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ ٹی ڈی پی اور جن سینا 19 لوک سبھا سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بی جے پی نہ صرف ریاست میں اپنا کھاتہ کھولنے کی امید کر رہی ہے بلکہ این ڈی اے کی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے اتحادیوں پر بھی اعتماد کر رہی ہے۔کرناٹک میں بی جے پی نے جے ڈی ایس کو کولار، حاسن اور منڈیا تین سیٹیں دی ہیں۔ بی جے پی نے 2019 میں 25 سیٹوں پر اپنی جیت کی تاریخ کو دہرانے کی امید کے ساتھ جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ تمل ناڈو میں پارٹی نے کئی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور انہیں 24 لوک سبھا سیٹیں دی ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں کے چار لیڈر بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پارٹی نے ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے ریاست کی دو بڑی پارٹیوں اے آئی اے ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے میںسے کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کیا ہے۔ اپنی تعداد میں بہتری کے علاوہ، پارٹی کو امید ہے کہ اس کے اتحادی جنوب میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
اتحاد میں سب سے اہم مہاراشٹر ہے، جہاں بی جے پی تقریباً 30 سیٹوں پر مقابلہ کرنے جا رہی ہے اور شیوسینا (ایکناتھ شندے) اور این سی پی (اجیت پوار) کو 19 سے 20 سیٹیں دینے جا رہی ہے۔ این ڈی اے نے ابھی تک سیٹوں کی تقسیم کے معاہدے کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن یہ طے ہے کہ دی جانے والی سیٹوں کی تعداد مذکورہ حد کے اندر رہے گی۔ اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے علاوہ، بی جے پی یہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے اتحادی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیرالہ میں بی جے پی 16 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے اور اتحادی چار سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بی جے پی کو 2019 میں کیرالہ میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اس بار پارٹی نے کانگریس اور بائیں بازو کی قیادت والے اتحاد کی اجارہ داری کو توڑنے کے لیے سریش گوپی، راجیو چندر شیکھر اور وی مرلیدھرن جیسے سینئر لیڈروں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ جہاں تک شمال مشرق کی بات ہے، بی جے پی نے آسام میں تین، اے جی پی کے لیے دو اور یو پی پی ایل کے لیے ایک سیٹ چھوڑی ہے۔ دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی نے اتحادیوں کو چار سیٹیں دی ہیں۔ میگھالیہ میں دو سیٹیں ایل ایس اور دو این پی پی کے لئے چھوڑی گئی ہیں۔ جبکہ منی پور میں این پی ایف کو اور ناگالینڈ میں ایک سیٹ این ڈی پی پی کو دی گئی ہے۔
اِدھر لوک سبھا انتخابات سے پہلے، سیاسی حکمت عملی ساز پرشانت کشور کا ماننا ہے کہ اس بار بی جے پی جنوبی اور شمال مشرقی بھارت میں اپنی سیٹیں اور ووٹ شیئر میں اضافہ کرے گی۔ بی جے پی 300 سے زیادہ سیٹیں جیت سکتی ہے جو کہ مرکز میں حکومت بنانے کے لئےدرکار جادوئی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشین گوئی کی ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال میں نمبرون پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی تلنگانہ میں بھی نمبر ون یا نمبر ٹو پارٹی بن سکتی ہے۔ اڈیشہ میں بھی وہ ایک بڑی پارٹی کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ پرشانت کشور کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن کے پاس بی جے پی کے وجئے رتھ کو روکنے کے تین مواقع تھے، لیکن سستی اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے وہ یہ مواقع گنوا بیٹھے ہیں اور یہی صورتحال این ڈی اے کی طاقت ہے۔
*****************