بار بار کی اِس صفائی کا مطلب کیا ہے ؟

تاثیر،۱۶       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پی ایم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر بڑے لیڈروں کو ان دنوں بار بار یہ صفائی دینی پڑ رہی ہے کہ کسی بھی قیمت پر ان کا ارادہ آئین کو تبدیل کرنے کا نہیں ہے۔ پچھلےمنگل کو پی ایم نے بہار کے ’گیا‘ میں ایک انتخابی جلسے میں ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات بالکل جھوٹی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر بابا صاحب امبیڈکر دوبارہ آتے ہیں تو وہ بھی ملک کے آئین کو نہیں بدل سکتے ہیں۔ گیا کے چناوی خطاب سے پہلے بھی پی ایم مودی ایسی بات کہہ چکے ہیں۔دوسری جانب گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے بھی ناگپور میں مرکزی وزیر نتن گڈکری کے حق میں مہم چلاتے ہوئے یہی بات کہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو ایسی باتیں کہنے کی ضرور ت آخر کیوں محسوس ہو نے لگی؟  انھیں بار بار یہ کیوں واضح کرنا پڑ رہا ہے کہ بی جے پی کے پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد بھی آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
  دراصل یہ سارا تنازع بی جے پی کے ہی کچھ بڑ بولے لیڈروں اور امیدواروں کے بیانات سے شروع ہوا ہے۔ ان لیڈروں نے اپنے اپنے علاقوں میں بہت پہلے سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر ملک میں بڑی تبدیلیاں لانی ہیں تو اس کے لئے بی جے پی کو پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں لانا ہوگا۔ اس کے لئے بی جے پی کو اکیلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل کرنی ہوگی ، تاکہ ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے اگر آئین کو بھی بدلنے کی نوبت آئے تو کوئی سیاسی جماعت اس کا راستہ نہیں روک سکے۔ظاہر ہے ایسے بیان بہادر لیڈروں کی اس  طرح کی بیان بازی نے بی جے پی کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔  اپوزیشن نے ان بیانات کو سنجیدگی سے لے لیا اور مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ ملک کے آئین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔اسی کام کے لئے بی جے پی اپنے لئے  370 اور این ڈی اے کے لیے 400 سے زیادہ سیٹیں لانے کی بات کر رہی ہے۔ بی جے پی پر آئین بدلنے کا الزام لگانے والوں میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، لالو پرساد یا دو، تیجسوی یادو، اکھلیش یادو اور اسد الدین اویسی جیسے لیڈر شامل ہیں۔ ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی تیسری بار مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کرتی ہے تو وہ آئین کو بدل دے گی اور ملک میں انتخابات کا سلسلہ رک جائے گا۔ ایسا کرنے کا مقصد بھارت سے جمہوریت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہے۔ اس طرح کے بیانات سوشل میڈیا پر بھی بڑی تیزی کے ساتھ وائرل کئے جا رہے ہیں۔
بات اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا، وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بی جے پی کے تقریباََ تمام لیڈرجمہوریت کے خاتمے کی بات کو غلط بیانی قرار دے رہے ہیں۔ گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے ملکارجن کھرگے کے بیان کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس ہمیشہ جھوٹ بولتی رہی ہے۔ کانگریس ذات پات اور مذہب کی سیاست کرنے والی پارٹی ہے۔ان کا کہنا ہے ہے کہ بی جے پی ترقی کی سیاست کرتی ہے اورملک کے تمام مذہب کااحترام کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین میں تبدیلی کا الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ ڈاکٹر پرمود ساونت نے دعویٰ کیا کہ پی ایم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی 370 اور این ڈی اے 400 سے زیادہ سیٹیں جیت لے گی۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ صرف مہاراشٹر میں بی جے پی اتحاد 40 سے زیادہ سیٹیں جیتے گا۔ بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ملک کا آئین گیتا قرآن ہے اور ملک ہمیشہ آئین کے مطابق چلے گا۔
اِدھر لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے سے ٹھیک پہلے،آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نےبی جے پی پر آئین کو الٹنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دیگر اپوزیشن رہنما بھی لالو پرساد یادو کے بیانات کی وکالت کرتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی 400 کو پار کرنے کی بات کر رہی ہے کیونکہ وہ آئین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس لیڈر ہر روز کسی نہ کسی بہانے آئین کو بدلنے کی سوچ رکھنے والی پارٹی بی جے پی پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتی ہے۔ آئین میں تبدیلی لانے کی کوشش کے حوالے سے لالو پرسادنہ صرف لوگوں کو بی جے پی کی چالوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کر رہے ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ رہے کہ بھارت کے لوگ ایسا کرنے والوں کی آنکھیں نکال لیں گے۔ ظاہر ہے، ان کا ہدف نریندر مودی ہیں، جن کے بارے میں لالو کی بیٹی میسا بھارتی کا کہنا ہے کہ اگر’’انڈیا‘‘ اتحاد کی حکومت بنی تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔لالو پرساد یادو کا کہنا ہے کہ آئین میں تبدیلی کرکے بی جے پی اس ملک سے مساوات، آزادی، بھائی چارے، سماجی انصاف اور ریزرویشن کو ختم کرنا چاہتی ہے۔  ان کا مقصد لوگوں کو آر ایس ایس اور سرمایہ داروں کا غلام بنانا ہے۔  اگر کوئی آئین کی طرف بھی دیکھے گا تو اس ملک کے دلت، پسماندہ اور غریب لوگ مل کر بی جے پی لیڈروں کی آنکھیں نکال لیں گے۔ دراصل، بی جے پی لیڈر اننت کمار ہیگڑے نے پچھلے دنوں ایک بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی اس بار آئین بدلے گی۔ حالانکہ بی جے پی نے ان کے بیان کو ان کی اپنی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ بعد میں بی جے پی کی طرف سے وضاحت آئی تھی کہ اس بیان سے بی جے پی کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ان کا بیان بی جے پی کے نظریے کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔
واضح ہو کہ بہار میں 2015 میں اسمبلی انتخابات ہونے تھے۔ نریندر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنائے جانے سے ناخوش نتیش کمار نے این ڈی اے چھوڑ کر آر جے ڈی سے ہاتھ ملا لیا تھا۔ بہار میں غیر بی جے پی پارٹیاں عظیم اتحاد بنا کر الیکشن لڑ رہی تھیں۔ اسی دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بہار آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ریزرویشن کا انتظام آزادی کے وقت کیا گیا تھا۔ کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ اب اس کا جائزہ ضروری ہے۔تب بھی لالو  پرساد یادو نے موہن بھاگوت کے اس بیان کو چناوی مدعا بنا تے ہوئے یہ کہہ کر اس کی تشہیر کی تھی کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار ریزرویشن ختم کرنا چاہتے ہیں۔لالو پرساد یادو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے۔بہار میں عظیم اتحاد کی حکومت بنی تھی۔ ٹھیک اسی طرح اس بار بی جے پی کے بڑ بولے اور ضرورت سے زیادہ پرجوش لیڈروں نے اس بار ہندوووٹروں کو خوش کرنے کی نیت سے آئین کو بدلنے والے بی جے پی کے پوشیدہ ایجنڈے کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ یہ ایشو ایک بار پھر لالو پرساد یادو کے ہاتھ لگ گیا ہے۔بی جے پی گھبرائی ہوئی ہے۔ پی ایم نریندر مودی بھی صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔مگر سیاسی مبصرین بھی اب یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ آخر بار بار کی اس صفائی کا مطلب کیا ہے ؟
***********