تاثیر،۲۲ اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
پی ایم نریندر مودی کے ایک متنازعہ بیان نے بھارت کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔اس بیان کی وجہ سے حزب اختلاف کے متعدد رہنما بھی چراغ پا ہیں اور پی ایم کے بیان کی شدید نکتہ چینی کر رہے ہیں۔گزشتہ اتوار کو راجستھان کے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم نےکہا تھا کہ اگر کانگریس پارٹی اقتدار میں آ گئی، تو ملک کی تمام دولت ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائے گی، جو در انداز ہیں اور جن کے زیادہ بچے ہیں۔ راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم مودی نےسابق پی ایم منموہن سنگھ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہہ دیا، ’’اس سے پہلے جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جائیداد کن لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔تقسیم ان لوگوں میں ہوگی ، جن کے زیادہ بچے ہیں اور در انداز ہیں،‘‘ پی ایم نے ریلی میں موجود لوگوں سے لگے ہاتھ یہ سوال بھی پوچھ لیا کہ ’’کیا آپ کی محنت کی کمائی دراندازوں کو دی جائے گی؟ کیا آپ کو یہ منظور ہے؟‘‘ ، ظاہر ہے سامنے سے جواب ملا ’’نہیں‘‘ ۔ سامعین کی زور دار تالیوں کے درمیان پی ایم نے مزید کہا،’’یہ اربن نکسلیوں کی سوچ ہے۔ میری ماؤں اور بہنوں، وہ آپ کے’’ منگل سوتر‘‘ (سہاگ کی علامت) کو بھی نہیں چھوڑیں۔ وہ اس حد تک جائیں گے۔کانگریس کا یہ منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں، بہنوں کے سونے کا حساب لیں گے، اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے اور پھر وہ جائیداد ان لوگوں میں تقسیم کریں گے ،جن کے بارے میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ پی ایم کےمذکورہ بیان کے اقتباسات سے یہ پوری طرح عیاں ہے کہ وہ مسلمانوں کو درانداز کہنے کے ساتھ ہی ایک ایسی برادری کہہ رہے ہیں، جس کے زیادہ بچے ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے ان کے اس بیان پر شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔
پی ایم مودی سابق پی ایم منموہن سنگھ کے جس بیان کے حوالے سے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے، اس کے بارے میں یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دسمبر 2006 میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے منموہن سنگھ نے وسائل کے منصفانہ استعمال کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں۔ زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی انفراسٹرکچر، اور عام بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایس سی/ایس ٹی کی ضروری عوامی سرمایہ کاری کی ضروریات میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ دیگر پسماندہ طبقات، خواتین اور بچوں کی بہتری کے لیے ہمیں نئی اسکیمیں بنانا ہوں گی تاکہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلم اقلیتوں کو وسائل پر پہلا دعویٰ حاصل ہو سکے۔ ‘‘حکومت کے مخالفین نے اس وقت بھی منموہن سنگھ کے بیان کو لے کر بڑا تنازعہ کھڑا کیا تھا، جس کے بعد پی ایم او نے وضاحت جاری کی تھی اور کہا تھا پی ایم کی تقریر کی جان بوجھ کر غلط ڈھنگ سے تشریح کی گئی ہے۔وضاحت کےمطابق، منموہن سنگھ نے کہا تھا،’’درجہ فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے اسکیموں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہوگی، ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نئی اسکیمیں بنانا ہوں گی کہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلم اقلیتوں کو ترقی تک رسائی حاصل ہو۔ مرکز کو وسائل کو مساوی طور پر بانٹنے کا حق ہونا چاہیے اور اس کے مطالبات وسائل کی دستیابی کے مطابق ہونے چاہئیں۔ پی ایم او نے کہا تھا کہ اس سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کا’’وسائل پر پہلا دعوی‘‘ کا حوالہ اوپر دی گئی تمام ترجیحات کا حوالہ دیتا ہے، جس میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، اقلیتوں، خواتین اور بچوں کی ترقی کے پروگرام شامل ہیں۔
پی ایم مودی کے تیکھے ریمارکس پر سوشل میڈیا میں جس طرح سے ہلچل مچی ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگ رہا ہے کہ لوگوں میں کس قدر اضطراب ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے میں مایوسی کا سامنا کرنے کے بعد اب پی ایم جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے کا ماننا ہے’’بھارت کی تاریخ میں کسی پی ایم نے اپنے عہدے کے وقار کو اتنا کم نہیں کیا جتنا مودی نے کیا ہے۔ مودی کی اعصاب شکن تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے گھبرائے ہوئے ہیں‘‘۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے’’پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں مایوسی کے بعد نریندر مودی کے جھوٹ کا لیول اتنا گر گیا ہے کہ اب وہ ڈرنے لگے ہیں۔کانگریس کے ’’انقلابی منشور‘‘ کو زبردست حمایت ملنے لگی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے بھی پی ایم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پی ایم نے راجستھان میں اپنی ریلیوں میں بے شرمی کا استعمال کرتے ہوئے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ’’ راہل گاندھی نے 7 اپریل، 2024 کو حیدرآباد میں ملک کے وسائل کی ’’دوبارہ تقسیم‘‘ کی بات نہیں کی تھی۔ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے یہ ضرور کہا ہے کہ ملک وسائل کی مزید منصفانہ تقسیم کے لئے سروے کروائیں گے۔جئے رام رمیش نے بھی پی ایم کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ’’مودی جی، آپ کے والدین نے 6 بچوں کو جنم دیا ہے۔ آپ کے شرمناک بیان اور دعوے کے مطابق کیا وہ مسلمان تھے،یا وہ در انداز تھے یا پھر وہ کچھ اور تھے؟‘‘اِدھرپی ایم کی تقریر پر سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو ، اسد الدین اویسی اور دوسرے رہنماؤں نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس ’’نیا پتر‘‘ اور سابق پی ایم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں جھوٹ پھیلانا گندی سیاست کی ایک مثال ہے۔ پی ایم مودی در اصل ’’انڈیا‘‘ اتحاد سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘
دوسری طرف بیشتر غیر جانبدار سیاسی مبصرین بھی سیاسی بیان بازی کے موجودہ رنگ کو ایک مہذب سماج کے مزاج کے خلاف قرار دیتے ہوئے یہی کہہ رہے ہیں کہ انتخابی سیاست میں زبان کے معیار کو حد سے زیادہ گرنے نہیں دینا بھی صحتمند جمہوریت کا تقاضہ ہے۔اس جمہوری تقاضے کا پاس و لحاظ سب کے لئے ضروری ہے۔
*****************