کانگریس کے بعد کل اتوار کو بر سر اقتداربھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی دہلی واقع اپنے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے اپنامنشور جاری کیا۔ منشور کا عنوان ’’بھاجپا کا سنکلپ ، مودی کی گارنٹی ‘‘ رکھا گیا ہے۔ بی جے پی اپنے منشور کو’’سنکلپ پتر‘‘ کہتی ہے۔یہ منشوروزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی صدر جے پی نڈا، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کی موجودگی میںجاری کیا گیا۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ون نیشن ون الیکشن اور کامن الیکٹورل رول کے انتظامات بھی کئے جائیں گے۔ ’’سنکلپ پتر‘‘ کو جاری کر نے کے دوران پی ایم مودی کا کہنا تھا کہ ملک کی کئی ریاستوں میں نئے سال کا جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے۔ ہم نے ’’سنکلپ پتر‘‘ کو ملک کے سامنے رکھا ہے۔اسے تیار کرنے کے لئے ملک بھر سے لوگوں نے تجاویز بھیجی ہیں۔پورا ملک اس کا انتظار کر رہاتھا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے ہر گارنٹی کوپور ا کیا ہے۔
پی ایم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ یہ ’’سنکلپ پتر‘‘ چار طبقات یعنی نوجوانوں، عورتوں، کسانوں اور غریبوں کو بااختیار بناتا ہے۔ہم نے بڑی تعداد میں روزگار بڑھانے کی بات کی ہے۔ ینگ انڈیا کی نوجوان امیدوں کی تصویر بی جے پی کے منشور میں ہے۔25 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر، ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ ہم نتائج لانے کے لیے کام کرتے ہیں۔یکساں سول کوڈ کے حوالے سے پی ایم مودی کا کہنا تھا کہ’’ بی جے پی اسے بہت اہم سمجھتی ہے۔‘‘پی ایم مودی نے اتنا پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے ’’سنکلپ پتر‘‘ کی خصوصیات بھی گنائیں۔ انھوں نے بتایا کہ’ پی ایم سوریہ گھر یوجنا ‘کے تحت اگلے پانچ سالوں کے لیے مفت راشن، پانی، گیس کنکشن، صفر بجلی بل کی فراہمی کی جائے گی۔ آیوشمان بھارت سے 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے، یہ مستقبل میں بھی دستیاب رہے گا۔70 سال سے زیادہ عمر کے ہر بزرگ کو اس اسکیم کے تحت لایا جائے گا۔ مودی کی گارنٹی یہ ہے کہ جن اوشدھی سینٹر پر 80 فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ دوائیں دستیاب ہوں گی۔ چار کروڑ پکے گھر بنا کر غریبوں کو دیے گئے ہیں۔ مزید تین کروڑ پکے گھر بنائے جائیں گے۔ پیپر لیک پر بڑا قانون بنایا گیا ہے، ہم اس پر عملدرآمد کرائیں گے۔’ مُدرا یوجنا‘ کے تحت 20 لاکھ روپے کا قرض ملے گا۔ قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی جائے گی۔ 2036 میں اولمپکس کی ہم میزبانی کریں گے۔’ پی ایم آواس یوجنا ‘میں معذوروں کو ترجیح دی جائے گی۔ ہم انفراسٹرکچر، مینوفیکچرنگ، اسٹارٹ اپ، کھیل، سرمایہ کاری، ہائی ویلیو سروس اور سیاحت کے ذریعے نوجوانوں کے لیے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کریں گے۔ ایک کروڑ بہنیں لکھپتی دیدی بن گئیں، تین کروڑ مزید لکھپتی دیدی بنائیں گے۔ ناری وندن ایکٹ نافذ کریں گے۔ بیج سے بازار تک کسانوں کی آمدنی بڑھانے کی کوشش کریں گے۔اناج کو سپر فوڈ کا درجہ دیا جائے گا، نینو یوریا اور قدرتی کاشتکاری کے ذریعے زمین کی حفاظت کی جائے گی، ماہی گیروں کی زندگی سے جڑے ہر پہلو جیسے بوٹ انشورنس، فش پروسیسنگ یونٹس اور سیٹلائٹ کے ذریعے بروقت معلومات کی فراہمی جیسے امور مضبوط بنایا جائے گا۔ ماہی گیروں کو سمندری گھاس اور موتی کاشت کرنے کی بھی ترغیب دی جائے گی۔ ٹمٹم چلانے والوں ، ٹیکسی ڈرائیور، آٹو ڈرائیور، گھریلو ملازمین، مہاجر مزدور، ٹرک ڈرائیور، پورٹر، سبھی کو’’ ای شرم ‘‘سے جوڑا جائے گا اور انہیں فلاحی اسکیمیں فراہم کی جائیں گی۔ تریولوور کلچرل سنٹر کے ذریعے بھارت کی ثقافت کو دنیا تک لے جایا جائے گا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھارت کی کلاسیکی زبانوں کے مطالعہ کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔ 2025 کو ’’قبائلی گورو ورش ‘‘ قرار دیا جائےگا۔ ایکلویہ اسکول، پی ایم جن من ،جنگلاتی مصنوعات میں ویلیو ایڈیشن اور ایکو ٹورازم کو فروغ دیا جائےگا۔ زندگی کے ہر شعبے میں او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی برادریوں کو عزت دی جائے گی۔ خواجہ سراؤں کو آیوشمان یوجنا کا فائدہ ملے گا۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل کانگریس نے 5 اپریل کو اپنا منشور جاری کیا تھا، جسے پارٹی نے ’’نیا ئےپتر‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس منشور میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن کی مقررہ حد کو بڑھانے کی بات کہی گئی ہے۔کانگریس کی حکومت بننے پر ایم ایس پی (کم از کم اعانتی قیمت) کی قانونی ضمانت فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت میں 30 لاکھ ملازمت کے آسامیاں پُر کی جائیں گی۔ راجستھان کی چرنجیوی اسکیم کی طرح پورے ملک میں 25 لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس فراہم کیا جائے گا۔ ملک بھر میں سماجی، معاشی اور ذات پر مبنی سروے کرائے جائیں گے۔ ڈپلومہ ہولڈرز یا 25 سال سے کم عمر کے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے ایک سال کی اپرنٹس شپ فراہم کی جائے گی۔ پیپر لیک کیسز سے نمٹنے کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹس بنائی جائیں گی اور متاثرین کو مالی معاوضہ دیا جائے گا۔ اسٹارٹ اپس کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے، تاکہ 40 سال سے کم عمر کے لوگ اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔ڈیجیٹل لرننگ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے، کلاس 9 سے کلاس 12 کے طلباء کو فون فراہم کیے جائیں گے۔21 سال سے کم عمر کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے ماہانہ10ہزار روپے کی اسکیم شروع کی جائے گی۔مہالکشمی یوجنا شروع کرکے ہر غریب خاندان کو ہر سال ایک لاکھ روپے غیر مشروط طور پر دیئے جائیں گے۔ یہ رقم گھر کی عورت کو دی جائے گی۔ 2025 سے مرکزی حکومت کی نصف ملازمتیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔فرنٹ لائن، ہیلتھ ورکرز جیسے آشا، آنگن واڑی اور مڈ ڈے میل عملہ کی تنخواہوں میں مرکزی حکومت کا حصہ دوگنا کیا جائے گا۔منریگا کے تحت اجرت بڑھا کر 400 روپے یومیہ کی جائے گی۔کم از کم قومی اجرت 400 روپے یومیہ کی جائے گی۔ منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے کسی بھی حصے میں طعام، لباس، محبت، شادی اور سفر یا رہائش کے انفرادی انتخاب میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ مداخلت کرنے والے قوانین کو منسوخ کیا جائے گا۔ اپوزیشن بنچ کے تجویز کردہ ایجنڈے پر ایوان کے اجلاس میں ہفتے میں ایک بار بحث کی جائے گی۔ انتخابی بانڈ اسکینڈل، عوامی اثاثوں کی اندھا دھند فروخت، پی ایم کیئرس اسکینڈل، بار بار انٹیلی جنس کی ناکامیوں کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں گی۔ آئین کے تحت حاصل میڈیا کی آزادی دلائی جائے گی۔ سنسر شپ لگانے والے قوانین کو واپس لیا جائے گا۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی آسامیاں تین سال کے اندر پُر کی جائیں گی۔ اگنی پتھ اسکیم کو ختم کر دیا جائے گا اور بھرتی کا پرانا عمل واپس لایاجائے گا۔ ون رینک، ون پنشن سے متعلق یو پی اے حکومت کے حکم کو نافذ کیا جائے گا۔ اقتدار میں آتے ہی جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو فوری طور پر بحال کیا جائے گا۔ پڈوچیری کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جا ئے گا۔ دہلی گورنمنٹ ایکٹ 1991 میں ترمیم کرتے ہوئے، لیفٹیننٹ گورنر کی خدمات سمیت تمام معاملات پر این سی ٹی، دہلی کی کابینہ کے مشورے پر کام کیا جائے گا۔
بی جے پی اور کانگریس دونوں کے منشور اب عوام کے سامنے ہیں۔دونوں منشور میں بہت سے ایسے وعدے شامل ہیں، جو متعلقہ پارٹیوں کے نظریات کی غمازی کرتے ہیں۔بی جے پی جہاں اپنے نظریات کو ’’نیا بھارت ، ترقی یافتہ بھارت‘‘ کے مفروضے سے جوڑ کر حق بجانب قرار دیتی رہی ہے، وہیں کانگریس ملک کے جمہوری اقدار کے تحفظ کی بات کرتی رہی ہے۔ایک طرف ’’وشو گرو‘‘ کا مفروضہ ہے تو دوسری طرف ’’جمہوری نظام‘‘ کی بقا کا سوال ہے۔ ایسے میں اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ لوک سبھا انتخابات میں عوام کس منشور کی حمایت کرتے ہیں۔فیصلہ تو بہر حال عوام کو ہی کرنا ہے !
**************