مصری ڈاکٹرنے غزہ میں انسانی تباہی کو ناقابل بیان قرار دیا

تاثیر،۲۸       اپریل ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

قاہرہ،28اپریل:غزہ کی پٹی میں زخمیوں کی طبی امداد اور ایمبولینس سروسزمیں حصہ لینے والے مصری ڈاکٹر احمد عبد العزیز جو آرتھوپیڈک اور اعصابی امراض اور زخموں کے علاج کے ماہر ہیں نے 10 روز غزہ کے جنھم زار میں تڑپتے زخمیوں کے درمیان گذارے۔
غزہ سے واپسی پر جمعہ کے روز ڈاکٹر احمد عبدالعزیز نے العربیہ ڈاٹ نیٹ اور الحدث ڈاٹ نیٹ کو غزہ میں آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ میں نے دیکھا اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ شائد یہ اپنی نوعیت کا تباہ کن سانحہ اور انسانی المیہ ہے جسے بیان کرنیکے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں ہر طرف تباہی اور بربادی ہے، زندہ بھوکے بچے، زخمی عورتیں اور زخموں سے تڑپتے لوگ ہیں۔ ایسے خوفناک مناظر دیکھ کر کلیجہ پھٹ گیا۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر احمد نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دس روزہ قیام میں بہت سے زخمیوں کے آپریشن میں حصہ لیا مگر ہمارے پاس لائے جانے والے بعض زخمیوں کے زخم شائد ہی ٹھیک ہوسکیں یا انہیں ٹھیک ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ بہت سے زخمی ایسے لائے جاتے جن کے ٹانگیں یا بازو کٹ گئے ہوتے۔ڈاکٹر احمد عبدالعزیز نے وضاحت کی کہ ہر فلسطینی کو اس کے جسم میں ایک سے زیادہ زخم ہیں لیکن بہت سے اسرائیلی بمباری میں مستقل طور پر معذور ہوچکے تھے۔ غزہ میں زندگی نام کی کوئی چیز نہیں اور یہ علاقہ انسانی رہائش کے قابل نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ “جنگ ختم ہونے کے بعد بھی فلسطینی زندگی کے تمام اجزاء کو کھونے کے بعد پٹی میں رہائش اور زندگی نہیں کرسکیں گے‘‘۔مصری ڈاکٹرنے کہا کہ انہوں نیے دیکھا کہ ہزاروں فلسطینی عام کپڑوں سے بنائے غیرانسانی حالات میں خیموں میں رہتے ہیں۔ سارا دن کھانے پینے کے بغیر گزارتے ہیں۔ پورے پورے خاندان مارے جا چکے ہیں۔ بہت سے والدین کواپنے بچوں کی لاشوں یا قبروں کا بھی پتا نہیں۔ مائیں شہید بچوں کی لاشوں کو دیکھنے کیلیے روتی ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بچوں کی لاشیں کہاں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے بعد زمین میں گہرائی میں دفن کردیا گیا اور ان کا اب پتا چلنا ممکن نہیں۔