! آدھی حقیقت ، آدھا فسانہ

تاثیر،۱۴       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

میڈیا رپورٹ کے مطابق منگل کے روز وارنسی میں ایک ٹی وی چینل کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پی ایم نریندر مودی نے یہ کہاتھا کہ جس دن میں ہندو اور مسلم میں تقسیم کرنے لگوں گا، عوامی زندگی کے لائق نہیں رہ سکوں گا۔اس کے ساتھ ہی موصوف نے یہ بھی کہا تھا، ’’ میں ہندو مسلم نہیں کروں گا، یہ میرا وعدہ ہے ، میرا سنکلپ ہے۔‘‘
پی ایم مودی نے اتنی بڑی بات یو نہی بے خیالی میں نہیں کہہ دی تھیں۔ انھوں نے اس کا پس منظر بھی پیش کیا تھا، جو شاید ملک کےمسلمانوں کے حوالے سے ، ا ب تک کی ان کی عوامی زندگی کا پہلااعترافِ حقیقت تھا۔پی ایم نے اپنے انٹر ویو میں کھلے دل یہ کہا تھا، ’’ میری پرورش مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں ہوئی ہے۔ ہمارے پڑوس میں مسلمان خاندان رہتے تھے۔ میں بچپن میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ عید منایا کرتا تھا۔ عید پر ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا کیونکہ کھانا پڑوسی مسلمانوں کے گھروں سے آتا تھا۔ میرے بھی بہت سے مسلمان دوست ہیں۔‘‘ صرف اتنا ہی نہیں انھوں یہ بھی کہا تھا ’’ہماری حکومت مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر امتیاز نہیں کرتی ہے۔ 2002 کے بعد میرے امیج کو خراب کیا گیا۔ لوگوں نے میری شبیہہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ میں ووٹ بینک کے لیے کام نہیں کرتا ہوں۔ اگر کچھ غلط ہے تو میں کہوں گا کہ غلط ہے۔‘‘ پی ایم مسلمانوں کو درانداز کہنے اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کے حوالے سے سوال کا بھی جواب دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ’’ جب میں لوگوں کے زیادہ بچے پیدا کرنے کی بات کرتا ہوں تو لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ میں مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ بہت سے غریب ہندو خاندانوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے بچے ہونے کی وجہ سے وہ انہیں مناسب تعلیم نہیں دے پاتے ہیں۔ میں نے نہ ہندوؤں کا نام لیا نہ مسلمانوں کا۔ میں نے صرف ایک اپیل کی ہے کہ بچے اتنے ہی پیدا کریں جتنے آپ سنبھال سکتے ہیں۔ جب پی ایم سے پوچھا گیا کہ کیا مسلمان آپ کو ووٹ دیں گے؟ اس پر ان کا جواب تھا ، ’’ مجھے یقین ہے کہ ملک کے لوگ مجھے ووٹ دیں گے۔‘‘ پی ایم مودی کے اس انٹرویو کو لیکر سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔پی ایم کی باتوں کو’’ آدھی حقیقت ، آدھا فسانہ‘‘ بتایا جا رہا ہے۔یو ٹیوب نیوز چینل چلانے والوں نے تو مورچہ ہی کھول دیا ہے اور یہ ثابت کرنے میں لگ گئے ہیں کہ مبینہ گودی میڈیا کی معروف اینکر نے جان بوجھ کر پی ایم سے کراس کویشچن نہیں کیا تھا۔ اس کے لئے سوشل میڈیا ، شعوری طور پر حقائق کی پردہ پوشی کے لئے نیوز چینل کی خاتون اینکر کو بھی تنقید کا نشا نہ بنانے لگا ہے۔

اِدھر لوک سبھا انتخابات کے چار مرحلوں کےلئے ووٹنگ ہو چکی ہے۔ ابھی تین مراحل باقی ہیں۔ تمام جماعتیں الیکشن جیتنے کے لئے اپنے اپنے طورپر شروع سے ہی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کوششوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ میں بی جے پی کا رویہ نسبتاََ زیادہ عدم توازن کا شکار رہا ہے۔پی ایم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی کے دوسرے کئی بڑے لیڈروں نے مسلمانوں کے ’’ تشٹیکرن‘‘ کے حوالے سے دھرم کی بنیاد پر ووٹروں کو اس طرح سے پولر ائزڈ کرنا شروع کردیا کہ اکثریتی طبقہ کے لوگوں پر گراں گزرنے لگا اور ووٹنگ کا رجحان بڑی تیزی کے ساتھ یکطرفہ ہونے لگا ۔شروع میں لگا تھا کہ اس صورتحال پر بی جے پی کی بھی پوری نظر ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے پی ایم نریندر مودی کو یہ کہنا پڑا ہےکہ ’’ میری پرورش مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں ہوئی ہے۔ ہمارے پڑوس میں مسلمان خاندان رہتے تھے۔ میں بچپن میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ عید منایا کرتا تھا۔ عید پر ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا تھا کیونکہ کھانا پڑوسی مسلمانوں کے گھروں سے آتا تھا۔ میرے بھی بہت سے مسلمان دوست ہیں۔‘‘ مگر اس انٹر ویو کے بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ پی ایم کی یہ خوشگوار باتیں صرف انٹر ویو کے لئے تھیں۔ پارٹی کے چناوی مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ابھی یہ کل (15 مئی) کی بات ہے ۔ پی ایم نریندر مودی انتخابی تشہیر کی غرض سے مہاراشٹر میں تھے۔وہاں ناسک میں منعقد ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر مسلمانوں کے حوالے سے کا نگریس کو نشانہ بنایا۔پی ایم مودی نے وہاں بھی وہی بات دہرائی ، جسے انھوں نے ایک ہفتہ پہلے راجستھان کے بانسواڑہ رریلی میں کہا تھا۔انھوں نے ناسک میںکہا ، ’’ بابا صاحب مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے خلاف تھے، لیکن کانگریس کہہ رہی ہے کہ وہ ایس ٹی، ایس سی، او بی سی اور غریبوں کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے گی۔ کانگریس آپ کی جائیداد بھی ضبط کرے گی ۔کانگریس اس کے لئے تیاری کر رہی ہے۔کانگریس کی سوچ یہ ہے کہ ملک کی حکومتوں کے ذریعہ بنائے گئے بجٹ کا 15 فیصد صرف اقلیتوں پر خرچ کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ مذہب کی بنیاد پر بجٹ کی تقسیم۔وہ مذہب کی بنیاد پر طرح طرح کی تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ہم نے کبھی کسی کا مذہب نہیں دیکھا، نہ ہی کسی کا مذہب پوچھا ہے۔ اسکیمیں سب کے لیے بنتی ہیں، سب کو اسکیموں کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بجٹ کو اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم کرنا کتنا خطرناک ہے۔ اقلیت ان کی نظر میں صرف ایک ہے اور وہ ہے ان کا پسندیدہ ووٹ بینک ۔جب کانگریس نے یہ مسئلہ اٹھایا تو میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا۔ میں نے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔ کانگریس چاہتی تھی کہ ملک کے بجٹ کا 15 فیصد صرف مسلمانوں پر خرچ کیا جائے۔ بی جے پی کی کوششوں سے ایسا منصوبہ نہیں بن سکا۔ مودی نہ تو مذہب کی بنیاد پر بجٹ تقسیم ہونے دیں گے اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دیں گے۔‘‘ پی ایم نریندر مودی کے اس خطاب سے ایک بار پھر ملک کی انتخابی سیاست میں ہلچل سی پیدا ہو گئی ہے اور سیاسی مبصرین کے ذریعہ یہ سوال ا ٹھایا جانے لگا ہے کہ ناسک میں کہی گئیں باتیں صحیح ہیں تو کیا دو دن قبل کے انٹر ویو کی باتیں’’ آدھی حقیقت ، آدھا فسانہ‘‘ تھیں ؟