اسلامک ایجو کیشنل سنٹر معہد نگر ککوڑوا میں تقسیم انعامات تقریب کا انعقاد۔

تاثیر،۲۵       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پوزیشن ہولڈرز علمائے کرام کے ہاتھوں انعامات سے سرفراز، سال رواں کے انجمن کاآغاز۔
ارریہ :- (۔ مشتاق احمد صدیقی ) اسلامک ایجو کیشنل سنٹر معہد نگر ککوڑوا کے کیمپس میں ماسٹر بختیار ھاشمی ناظم عمومی مدرسہ تعلیم القران بیلوا کی صدارت اوراسلامک ایجو کیشنل سنٹر کے بانی معروف عالم دین الحاج مولانا احمد علی سابق صدرالمدرسین و بانی مدرسہ مصباح العلوم سوالدہ مجھوا کی سرپرستی میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ تقریب کا بابرکت آغاز تلاوت قران اور نعت نبوی سے کیا گیا جبکہ افتتاحی کلمات کے تحت ادارہ کے پرنسپل دانش احمد قاسمی نے بتایا کے اسطرح کا پروگرام ہر سال کیا جاتا ہے تاکے بچے بچیون میں مزید محنت کا شوق وجذبہ  پیدا ہو اور آگے آنے کاشوق دل میں جنم لی، الحمد اللہ سال گزیشتہ سے زیادہ امسال بچے وبچیون نے کامیابی کا پرچم لہرایا۔ آپ نے مزید بتایا کے یہ ادارہ اول دن سے محنت کی وجہ سے ترقی کے راستہ پر گامزن ہے پھر گزشتہ تعلیمی سال کے سالانہ امتحان کے رزلٹ کا اعلان کیا گیا اور سالانہ امتحان میں درجہ وار فرسٹ ،سکنڈ اور تھرڈپوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو علماء کرام ، مہمانانِ عظام اور دانشوران کے مبارک ہاتھوں سے توصیفی اسناد سمیت انعامات سے نوازے گئے۔ جبکہ اس خصوصی تقریب میں مہمانان خصوصی کے طورپر مفتی انعام الباری، ناظم اعلٰی مدرسہ تنظیم المسلمین رجوکھر، قاضی عتیق اللہ رحمانی قاضی شہر ارریہ، مولانا غلام حیدر ندوی امام وخطیب ضلع مدھے پورہ، کا تب نورالاسلام اور قمر الہدیٰ وغیرہ شروع سے لے کر آخر تک شریک پروگرام رہے جبکہ اس موقع پر یہاں کی طالبات کو خطاب کرتے ہوئے مفتی انعام الباری قاسمی نے کہا کہ قرآن مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر حصول تعلیم کی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ علم کی فرضیت کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ” رسول اللہ سلم نے ارشاد فرمایا علم سیکھو کیونکہ اللہ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت ، اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح ، اس کی جستجو جہاد ، نا واقف کو سکھا نا صدقہ اور اس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے”۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ حصول علم تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ حصولِ علم ایک عمدہ اور لازمی شے ہے۔ اب چاہے عصری تعلیم ہو یا دینی تعلیم ہر ایک کی اپنی قدر و منزلت ہے۔ لیکن بد قسمتی سے دور حاضر میں ہم نے عصری علوم کو دینی علوم پر ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اذہان عصری علوم کے غلام بن گئے ہیں۔ اس میں بہت حد تک ہم بھی قصور وار ہیں اور کسی حد تک ہمارا ناقص تعلیمی نظام بھی ذمہ دار ہے آئیے! آپ کو ماضی کی گلیوں کی سیر کراتے ہیں۔ ماضی بعید میں تعلیم کا
نظام کچھ یوں تھا کہ ایک ہی چھت کے نیچے عالم بھی بنتا تھا اور سائنس دان بھی۔ امام غزائی اور البیرونی نے ایک ساتھ ایک ہی مدرسے میں پڑھا، لیکن امام غزائی بڑے عالم دین بنے اور البیرونی فلکیات کے بڑے سائنس
دان۔ مجد دالف الثانی، جنھوں نے فتنہ اکبر کا سد باب کیا ہے۔ ان کے ماسوا قاضی عتیق اللہ رحمانی قاضی شہر ارریہ سمیت دیگر مہمانان نے بھی تعلیم وتعلم پر پرمغز خطاب کیا اور ادارہ کے پرنسپل دانش احمد نے آخر میں تمام مہمانانِ گرامی کاشکریہ ادا کیا اور قاضی شہر کی رقت آمیز دعاء پر  تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔