اسمرتی ایرانی کو ’’واک اوور ‘‘ مل جائے گا ؟

تاثیر،۴       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اتر پردیش کی امیٹھی لوک سبھا سیٹ کو چھوڑ کر رائے بریلی سے پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے بعد بھی سیاست راہل گاندھی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ بی جے پی لیڈر تنقید کا تیر چلاتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں۔ پی ایم  نریندر مودی کا کہنا ہے’’ شہزادے وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے بھی ہار رہے ہیں، اس لیے رائے بریلی سے نکلنے کا راستہ تلاش رہے ہیں۔‘‘ امیٹھی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار اور موجودہ ایم پی اسمرتی ایرانی بھی حملہ آور ہیں۔ان کا کہنا ہے’’ کانگریس پارٹی کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ امیٹھی میںان کی شکست یقینی تھی۔ راہل گاندھی اس ہار کے ڈر سے امیٹھی سے الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں، جب راہل گاندھی نے امیٹھی کے ساتھ وائناڈ سے نامزدگی کا پرچہ داخل کیا تھا تو وزیر داخلہ امیت شاہ نے خوف کے مارے وہاں جانے کی بات کہی تھی۔ بجنور میں منعقد ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا تھا ’’راہل گاندھی کیرالہ بھاگ گئے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ امیٹھی کے ووٹر ان سے حساب مانگیں گے‘‘۔
  اِدھرحالات پوری طرح سے ویسے نہیں جیسا کہ بی جے پی کے لوگ بتا رہے ہیں۔  سوشل میڈیا پر راہل گاندھی کے لیے ’’ڈرو مت ، لڑو‘‘ جیسے ہیش ٹیگس چلائے جا رہے ہیں۔ چوک چوراہوں پر لوگ یہ بھی کہتے سنتے نظر آ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کا سیاسی قد اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ وہ اسمرتی ایرانی سے چناؤ لڑیں۔ حالانکہ راہل گاندھی کو گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں اسمرتی ایرانی کے ہاتھوں ہی شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ 1980 سے امیٹھی لوک سبھا سیٹ گاندھی خاندان کے پاس ہے۔ راہل گاندھی یہاں سے تین بار الیکشن جیت چکے ہیں۔ لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اتر پردیش میں نریندر مودی کی لہر میں بی جے پی کی امیدوار اسمرتی ایرانی نے انھیں  55,120 وٹوں سے شکست دے کر یہ سیٹ چھین لی تھی۔ اس باربھی راہل گاندھی کے امیٹھی سے الیکشن لڑنے کی مسلسل بات چل رہی تھی۔ مگر جب اچانک ان کے رائے بریلی چلے جانے کی خبر آئی تو امیٹھی کے لوگوں میں زیادہ جوش و خروش نہیں دیکھا گیا۔ اب و ہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے سے یہ پوچھتے نظر آرہے ہیں کہ راہل گاندھی نے اچانک امیٹھی کی لوک سبھا سیٹ چھوڑ کر رائے بریلی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
  اس طرح کے سوال کے جواب میں سیاسی مبصر ین کہتے ہیں، ’’ اسمرتی ایرانی کو امیٹھی میں غیر گاندھی خاندان کے امیدوار سے اگر ہرایا جا تا ہے، تو اس سے بڑا پیغام جائے گا۔ اگر وہ راہل گاندھی سے ہار بھی جائیں تو ان کا سیاسی قد اونچا رہے گا۔ 2014 میں وہ راہل گاندھی سے ہار گئی تھیں، اس کےباوجود انہیں وزیر بنا دیا گیا تھا۔سیاست میں اسمرتی ایرانی کا عروج صرف گاندھی خاندان کے خلاف الیکشن لڑنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسمرتی ایرانی کے پاس نہ ذات کا ووٹ ہے اور نہ ہی برادری کا۔‘‘اس کے بر عکس امیٹھی کے بی جے پی ضلع صدر رام پرساد مشرا کا کہنا ہے ، ’’ سمرتی ایرانی جی 2014 میں آئیں اور الیکشن ہار گئیں لیکن ،انہوں نے امیٹھی کو نہیں چھوڑا۔ وہ امیٹھی کو اپنا خاندان مانتی ہیں۔ انہوں نے بہت سارے ترقیاتی کام کئے اور اسی بنیاد پر 2019 میں انہوں نے راہل گاندھی کو شکست دی۔ اس بار یہاں کا الیکشن یک طرفہ ہے۔ عوام نے سوچ لیا ہے۔ دیدی اسمرتی ایرانی ہی یہاں سے منتخب ہوں گی۔ کچھ اسی طرح کی باتیں بی جے پی کے کچھ دوسرے لوگ بھی کہہ رہے ہیں۔بی جے پی کیمپ میں یہ بات بھی ہو رہی ہے کہ کانگریس کے پاس یہاں سے کوئی امیدوار نہیں تھا، اس لیے کانگریس نے کشوری لال کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ حالانکہ کشوری لال کسی بھی زاویے سے اسمرتی ایرانی کے برابر کا چہرہ نہیں ہیں۔‘‘
اِدھر بی جے پی بھلے ہی راہل گاندھی کے امیٹھی چھوڑنے کو ڈر سے بھاگ جانے کا نام دے رہی ہے ، لیکن سیاسی ماہرین اسے کانگریس کی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ، ’’جب سونیا گاندھی نے رائے بریلی کی سیٹ چھوڑ کر راجیہ سبھا کا پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا، تو یہ غیر معلنہ طور پر اسی وقت طے ہو گیا تھا کہ گاندھی خاندان کا ہی کوئی فرد رائے بریلی سے الیکشن لڑے گا۔ یعنی  اس باراگر راہل گاندھی امیٹھی اور وائناڈدونوں جگہ سے الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ پرینکا گاندھی کے لئے رائے بریلی کی سیٹ چھوڑ سکتے ہیں۔اس بات کا اشارہ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کے اس بیان سے بھی ملتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پرینکا گاندھی کوئی بھی ضمنی انتخاب جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔
راہل گاندھی کو امیٹھی سے ہٹا کر بریلی سے لڑانے کا فیصلہ بھلے ہی کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت لیا گیا ہو لیکن وہاں کے بیشتر لو گ اس فیصلے کو کانگریس کی سیاسی چوک بتاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کو یہیں سے الیکشن لڑنا چا ہئے تھا۔ وہ مانتے ہیںکہ اسّی کی دہائی تک امیٹھی کا شمار ملک کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا تھا۔ یہاں کی مٹی بنجر اور الکلائن تھی۔ سال 1980 میں یہاں سے کانگریس لیڈر سنجے گاندھی نے الیکشن جیتا تھا۔ لیکن اگلے ہی سال ہوائی حادثے میں سنجے گاندھی کی موت کے بعد راجیو گاندھی نے امیٹھی لوک سبھا کو اپنی ’’کرم بھومی‘‘ بنالیا ۔راجیو گاندھی کے بعدسونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ امیٹھی میں زراعت،  سڑک ، صحت ، بجلی اور دیگر شعبوں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے ، وہ کانگریس کی ہی دین ہے۔پچھلے پانچ سالوں سے امیٹھی میں ترقی کی رفتار سست پڑی ہے۔ حالانکہ وہ یہ مانتے ہیں کہ کانگریس نے ایک برہمن امیدوار کو میدان میں اتار کر بڑا کھیل کھیلا ہے۔ چنانچہ زیادہ تر برہمنوں کے ساتھ ساتھ  نے آئین کو لاحق خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے، دلت برادری کا ایک حصہ انڈیا اتحاد کی حمایت کر رہا ہے۔ سماجی تانے بانے کے حوالے سے وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ امیٹھی میں زیادہ تر ووٹروں کا تعلق دلت اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ امیٹھی میں ایک اندازے کے مطابق 34 فیصد ووٹر او بی سی، 26 فیصد ووٹر دلت اور 20 فیصد ووٹر مسلمانوں کے ہیں۔ اس کے علاوہ امیٹھی میں 8 فیصد برہمن اور 12 فیصد راجپوت ووٹر ہیں۔ بی جے پی کی جارحانہ انتخابی حکمت عملی بھلے ہی کچھ دوسری تصویر دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے امیٹھی لوک سبھا سیٹ پر اسمرتی ایرانی کو ’’واک اوور ‘‘ مل جائے گا۔
***********************