سوال ، جو دور تک تعاقب کرتا رہے گا

تاثیر،۱۳       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

پی ایم نریندر مودی کے حوالے سے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے ذریعہ ’’ون نیشن ، ون لیڈر‘‘ کا سیاسی فلسفہ پیش کئے جانے کے بعد سیاست کی دنیا میں پلچل پیدا ہونا فطری ہے۔اب عام آدمی سمیت دوسری اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو اس موضوع پر اپنی زبان صاف کرنے کا موقع مل گیا ہے۔دوسری طرف اب بی جے پی کو یہ صفائی دینی پڑ رہی ہے کہ بی جے پی کے آئین میں 75 سال میں پارٹی لیڈروں کے ریٹائرمنٹ کی بات کہیں بھی نہیں لکھی ہے۔یعنی نریندر مودی ہی پی ایم کی حیثیت سے ملک کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ  شراب گھوٹالہ میں تہاڑ جیل میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزار کر عبوری ضمانت پر باہرآنے کے بعد اپنی پہلی ریلی میں ہی اروند کیجریوال نے بی جے پی پر شدید حملہ کیا تھا۔انھوں نے پیشین گوئی کے انداز میں کہا تھا کہ پی ایم نریندر مودی مستقبل کے پی ایم کے طور پرامیت شاہ کے لیے میدان تیار کر رہے ہیں۔ مودی اگلے سال 17 ستمبر کو 75 سال کے ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی اروند کیجریوال نے یہ سوال اچھالا تھا کہ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد اگر امت شاہ ملک کے پی ایم بنتے ہیں تو مودی جی کی گارنٹی کون پورا کرے گا؟ اِدھر اروند کیجریوال کے اس سوال پر امت شاہ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ہے،’’ کیجریوال اینڈ کمپنی کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کے آئین میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے کہ کوئی 75 سالہ لیڈر ریٹائر ہو جائے گا۔ پی ایم مودی ہی ملک کو آگے بڑھائیں گے۔‘‘
 امت شاہ کے بیان کے بعدعام آدمی پارٹی لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے یہ پوچھا ہے،’’ جو اصول لال کرشن اڈوانی پر لاگو تھے وہ پی ایم مودی پر کیوں لاگو نہیں ہوتے؟‘‘   سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور مودی نے خود یہ اصول بنایا تھا کہ پارٹی میں جو شخص 75 سال کا ہو جائے گا وہ ریٹائر ہو جائے گا۔ وہ الیکشن نہیں لڑے گا۔ اس قاعدے کے تحت لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور سمترا مہاجن سمیت کئی بڑے لیڈروں کودرکنار کردیا گیا۔ کئی اراکین پارلیمنٹ کے ٹکٹ منسوخ کر دیے گئے۔کچھ اسی طرح کی باتیں سیاسی گلیاروں میں بھی زور و شور سے سنائی دے رہی ہیں۔
لال کرشن اڈوا نی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نےبی جے پی کی بنیاد رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ وہ بی جے پی کے بانی رکن ہیں۔ 1980 میں بی جے پی کے قیام کے وقت وہ پارٹی کے ایک مضبوط ستون تھے۔ یہ وہ لیڈر ہیں جو طویل عرصے تک بی جے پی کے صدر رہے ہیں۔لمبے عرصے تک پارلیمنٹ میں بھی خدمات انجام دیں۔جب ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے 1951 میں جن سنگھ کی بنیاد رکھی تو اڈوانی 1957 تک پارٹی سکریٹری رہے۔ پھر 1973 سے 1977 تک انہوں نے جن سنگھ میں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جب 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی قائم ہوئی تو وہ اس کے بانی رکن تھے۔ اڈوانی 1980 سے 1986 تک بی جے پی کے جنرل سکریٹری رہے۔  وہ 1986 سے 1991 تک بی جے پی کے صدر رہے۔ وہ تین بار بی جے پی کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ 5 بار لوک سبھا کے رکن اور 4 بار راجیہ سبھا کے رکن رہ چکے ہیں۔ 1977 سے 1979 تک وہ پہلی بار مرکزی وزیر بنے۔ انہوں نے اپنا آخری لوک سبھا الیکشن 2019 میں گاندھی نگر، گجرات سے لڑا تھا۔اس کے بعد انہوں نے اس سیٹ پر امت شاہ کو اپنا جانشین بنایا ۔
  اسی طرح ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کے بارے میں لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے انھوں نے صرف 10 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد وہ 1949 میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور 1957 میں جن سنگھ میں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر جوشی نے ایودھیا تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ الہ آباد لوک سبھا سیٹ سے لگاتار 3 بار جیتے۔  2014 میں، انہوں نے وارانسی لوک سبھا سیٹ نریندر مودی کے لئے خالی کی تھی۔ انہوں نے بنارس کے بجائے کانپور سے الیکشن لڑا اور تقریباً ڈھائی لاکھ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ یہ ان کا آخری الیکشن تھا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔ سابق لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کے سلسلے میں بھی اسی طرح کا چرچا عام ہے۔ان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ سال 1989 میں بی جے پی نے اندور سے عام انتخابات کا ٹکٹ دیا۔ سمترا مہاجن نے اندور حلقہ سے ایک بار نہیں بلکہ لگاتار آٹھ بار کامیابی حاصل کی۔ سال 2002 میں وہ اٹل بہاری حکومت میں وزیر مملکت تھیں۔ بعد میں 2014 میں وہ مودی حکومت میں لوک سبھا کی اسپیکر بنیں۔
جہاں تک 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی بات ہے تو یہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ کانپور سے سبکدوش ہونے والے بی جے پی ایم پی ستیہ دیو پچوری، بریلی سے سنتوش گنگوار اور میرٹھ سے راجندر اگروال کو بھی اس بار ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان لیڈروں کی عمر 75 سال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے پارٹی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ الہ آباد لوک سبھا سیٹ سے سبکدوش ہونے والی ایم پی ریتا بہوگنا جوشی کو بھی اس بار موقع نہیں دیا گیا ہے۔ ان لیڈروں کی مثا ل دیتے ہوئے عام آدمی پارٹی پی ایم مودی اور امیت شاہ پر حملہ کر رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کا ماننا ہے کہ جس طرح یہ لیڈر 75 سال کے بعد ریٹائر ہوگئے، اسی طرح جب پی ایم مودی اگلے سال 75 سال کے ہو تے ہی خود بخود ریٹائر ہو جائیں گے اور مودی ان کے جانشیں بن جائیں گے۔عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کی بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ یہاں سے ان کا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا پی ایم مودی کی چناوی گارنٹی کو ان کے جانشیں پورا کریں گے؟  ظاہر ہے بی جے پی کے پاس اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہےسوائے وہی بات کہنے کے جو وزیر داخلہ امت شاہ کہہ رہے ہیں،جس سے اروند کیجریوال کے ’’ون نیشن، ون لیڈر‘‘ کا سیاسی فلسفہ مسترد نہیں ہوتا ہے۔ ایسے میں کیا  لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ریتا بہوگنا اور سنتوش گنگوا ر جیسے بڑے لیڈروں کی ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی تھی؟  یہ وہ سوال ہے جو بی جے پی کا تعاقب دور تک کرتا رہے گا۔