!ضرورتمندوں کی مدد کرو ، یہ ان کا حق ہے

تاثیر،۳       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

تین چار دنوں قبل امارت شرعیہ ، پھلواری شریف، پٹنہ کی ایک ٹیم کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہوئی نظر آئی تھی۔ ٹیم مدھوبنی ضلع میںآتش زدگی کے شکار ایک گاؤں میں رفاہی خدمات انجام دے رہی تھی۔بہار کے ساتھ وطن عزیز بھارت کا ایک بڑا حصہ اِ ن دنوں شدید گرمی اور ہیٹ ویب کی زد میں ہے۔ پھوس کے گھروں میں آگ لگنے اور چشم زدن میں سب کچھ راکھ میں تبدیل ہوجانے کے واقعات جا بجا رونما ہو رہے ہیں۔ ایسے میںسماج کے حساس اور اہل خیر حضرات انفرادی یا اجتماعی طور پر متاثرین کو کھانے پینے کا سامان اور کپڑے وغیرہ خاموشی کے ساتھ مہیا کرا رہے ہیں، یہ بڑ ا اچھا اور قابل ستائش عمل ہے۔ جب معاشرہ میں کچھ لوگ کسی اجتماعی آزمائش کا شکار ہو کر بے سہارا ہو جائیں اور ان کو زندگی کے بنیادی لوازمات کو پورا کرنے کے لئے امداد و تعاون کی ضرورت پڑ جائے تو ظاہر ہے ملک کے دیگر تمام شہریوں کو پہلی فرصت میں وہی کام کرنا چاہئے جو اِن دنوں امارت شرعیہ کی ٹیم اور دوسرے حساس لوگ کر رہے ہیں۔

مذکرہ کار خیر کے حوالے سے یہاں جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ کا تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک بار عید الاضحٰی کے خطبہ میں نبی کریمؐ نے قربانی کرنے والوں پر یہ پابندی لگا دی کہ تین دن کے بعد کسی کے گھر میں گوشت موجود نہیں رہنا چا ہئے، مقصد یہ تھا کہ اپنے لئے ذخیرہ کرنے کی بجائے لوگوں کو کھلا دیں۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے اس ہدایت پر عمل کیا اور تین دن میں گوشت ختم ہو گیا۔ اگلے سال عید الاضحٰی کے موقع پر خطبہ کے دوران کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا پچھلے سال والی پابندی اس سال بھی قائم ہے یا ختم ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پابندی صرف گزشتہ سال کے لیے تھی۔ اب وہ باقی نہیں ہے۔ اس لیے گوشت کھانے اور کھلانے کے ساتھ ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ پھر آپؐ نے گزشتہ سال والی پابندی کی وجہ بیان فرمائی کہ مدینہ منورہ میں کچھ خاندان مہاجرین کے آ کر آباد ہوئے تھے، جو ضرورت مند تھے۔ اس لئے ان کی وجہ سے میں نے پابندی لگا دی تھی کہ ذخیرہ کرنے کی بجائے گوشت ان کو کھلاؤ تاکہ وہ محروم نہ رہیں۔

مذکورہ سنت مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاشرہ میں اگر کچھ ضرورت مند افراد اپنی ضروریات خود پوری نہیں کر سکتے ہیں تو باقی لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انہیں ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کریں۔بلکہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ضرورت مند لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا انتظام خود کرے اور حسب ضرورت شہریوں ایسا کرنے کی ترغیب دے۔ البتہ انسانی دل رکھنے والوں کو اس کے لئے حکومتی اقدامات کے انتظار کی بجائے ازخود اس کا اہتمام کرنا چاہئے، جیسا کہ آتش زدگی کے حالیہ واقعات سے تباہ یا طوفانی سیلاب سیلاب سے بے گھر اور بے سہارا ہو جانے والوں کے لئے امارت شرعیہ کی ٹیم کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے دینی و رفاہی ادار ے اکثررضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اس سے پہلے بھی دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ رہنی چاہئے کہ اب تک آتش زدگی کے شکار یا سیلاب سے متاثرین کی امداد اور ان کی باز آبادکاری کے لئے جو کام ہوا ہے یا ہوتا رہا ہے، وہ بہت ہی خوش آئند ضرور ہے ،مگر اس کی حیثیت وقتی امداد اور فرسٹ ایڈ کی ہے۔ جبکہ باز آباد کاری کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔یہ چند دن عمل نہیں ہو تا۔اس میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔اس کے لئے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو مسلسل اور مربوط محنت کرنے ضرورت ہوتی ہے۔

آتش زدگی ، قحط سالی ، سیلاب یا اس قسم کی دوسری اجتماعی آزمائشوں میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے ایک دوسرے ارشاد گرامی کا تذکرہ ضروری ہے۔وہ یہ کہ یمن سے آ کر مدینہ منورہ میں آباد ہونے والی اشعری قوم کے خاندانوں کی نبی اکرمؐ نے مختلف حوالوں سے خوب تعریف کی ہے۔اُن دنوں اشعری حضرات کو فقہاء اور قراء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے۔ ان میں سے حضرت ابو مو سیٰ اشعریؓ قرآن کریم کے بڑے قاریوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ان کی خود حضورؐ نے بھی تعریف فرمائی ہے۔ ایک بار حضرت ابو مو سیٰ اشعریؓ سے قرآن کریم کی تلاوت سن کر آپؐ نے فرمایا ’’ ابو مو سیٰ! تجھے تو اللہ تعالیٰ نے لحن داؤدی عطا فرما دیا ہے۔‘‘ اس خاندان کی ایک اور بات کی بھی نبی کریمؐ نے تعریف فرمائی ہے۔وہ یہ کہ جب کبھی اشعری حضرات کسی اجتماعی آزمائش کا شکار ہوتے تھے اور ضروریات زندگی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو جاتا تھا، تب سبھی اشعری اپنے اثاثے ایک جگہ اکٹھے کر کے پھر آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتےتھے ،جس سے ان کی ضروریات بھی کسی حد تک پوری ہو جاتی تھیں اور ایک دوسرے پر برتری کا ماحول بھی نہیں بنتا تھا۔ چنانچہ حضورؐ نے فرمایا ’’ مجھے اشعریوں کی یہ عادت اچھی لگتی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ ضرورت مند اور بے سہارا ہو جائیں تو معمول کے مطابق زندگی گزارنے اور ضروری سہولیات سے بہرہ ور لوگوں کو چاہئے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ شریک کریں اور مل جل کر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کریں۔

دھیان رہے ! قرآن کریم ایک جگہ فرمایا گیا ہے، ’’ مالداروں کے مال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔ ‘‘سائل اس ضرورت مند کو کہتے ہیں جو اپنی ضرورت کا اظہار کر کے سوال کرتا ہے، جبکہ محروم اس شخص کو کہا گیا ہے جو ضرورت مند تو ہے مگر اپنی ضرورت کا اظہار کر کے کسی سے سوال نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا ’’یتیموں اور قریبی رشتہ داروں اور مسافروں کو ان کا حق دو۔ ‘‘گویا یہ ان کا حق ہے اور جب اس عمل کے اجر و ثواب کا اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے وعدہ کیا ہے تو یہ ان پر کوئی احسان بھی نہیں ہے۔لہٰذا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو متاثرہ، بے سہارا، ضرورت مند اور مستحق افراد کی امداد اور ان کی باز آباد کاری کے لئے اپنی اپنی رسائی کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتے رہنے اور قرآن کریم کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھنے کی توفیق سے نوازیں کہ ’’ ضرورتمندوں کی مدد کرو ، یہ ان کا حق ہے !‘‘