وہ دیا رہ جائے گا

تاثیر،۱۲       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

آج 13 مئی ہے۔ آج لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلے میں ملک کی 96 سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہونے والی ہے۔ اس مرحلے میں تمام متعلقہ سیاسی پارٹیوں پر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی وراثت کو بچانے کی کوشش کریں ۔ دراصل آج جن 96 سیٹوں پر انتخابات ہونے والے ہیں وہ کبھی کانگریس کے گڑھ ہوا کرتے تھے لیکن، گزشتہ تین لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دھیرے دھیرے چار گنا سے زیادہ سیٹوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ وہیں ان انتخابات میں کانگریس نے اپنے گڑھ کی بہت ساری سیٹوں کو بتدریج گنوا دیا ہے۔ ان 96 سیٹوں کے حوالے سے سنٹرل الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین انتخابات میں کانگریس کی طاقت 50 سیٹوں سے گھٹ کر چھ سیٹوں پر آ گئی ہے۔ سیاست کے ماہرین کا خیال ہے کہ ووٹنگ کا یہ چوتھا مرحلہ علاقائی جماعتوں کے لیے سیاست میں اپنی وراثت کو بچانے کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ اس میں آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے لے کر اتر پردیش اور بہار تک کی سیاسی جماعتوں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔

2024 کے لوک سبھا انتخابات کے اس چوتھے مرحلے کے دوران 10 ریاستوں کی 96 لوک سبھا سیٹوں پر 1718 امیدوار سیاسی میدان میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ سنٹرل الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان 96 سیٹوں پر، جہاں ووٹنگ ہونے والی ہے، 2009 کے انتخابات تک کانگریس غالب تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں کانگریس نے ان ریاستوں میں 85 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ اس وقت کی الیکشن میں کانگریس نے اپنے بیشتر مخالفین کو شکست دے کر 85 میں سے 50 سیٹیں جیت کر ایک ریکارڈ بنایا تھا۔ لیکن جب 2014 میں انتخابات ہوئے تو ان ریاستوں کی 96 لوک سبھا سیٹوں پر سیا سی تانے بانے اس طرح بگڑ گئے کہ کانگریس پارٹی کو 47 سیٹوں کا نقصان ہوگیا۔ چنانچہ 2009 کے مقابلے 2014 میں کانگریس کو صرف تین سیٹیں ملی تھیں۔ اس کے بعد 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگریس کی کارکردگی بہتر نہیں ہو پائی۔ پارٹی نے 85 سیٹوں پر الیکشن لڑا لیکن اس الیکشن میں بھی پارٹی صرف چھ سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔

انتخابی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان تینوں انتخابات میں جیسے جیسے کانگریس کا گراف گرتا رہا، اسی طرح بی جے پی کا گراف اوپر کی جانب اٹھتا رہا۔ سنٹرل الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 89 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ اس الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی صرف دس سیٹیں جیت سکی تھی۔ جبکہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتنی ہی سیٹوں پر الیکشن لڑا اور 38 سیٹیں جیت لیں۔ اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2019 میں ان میں سے 89 سیٹوں پر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 42 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان تین انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 10 سے چار گنا زیادہ سیٹیں حاصل کیں اور 42 کے ہندسے تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ہی تین انتخابات میں کانگریس پچاس سیٹوں سے گھٹ کر چھ رہ گئی۔

وراثت بچانے کے لیے علاقائی جماعتوں پر دباؤ کے حوالے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے انتخابات میں نہ صرف یہ کہ قومی پارٹیوں کے گراف میں صرف تیزی سے گراوٹ اور اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بلکہ علاقائی پارٹیوں نے بھی ووٹرز پر اپنی مضبوط پکڑ بنائی۔ ان کا کہنا ہے کہ وائی ایس آر کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں نو سیٹیں ملی تھیں۔ جبکہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں وائی ایس آر نے لوک سبھا میں بڑے مارجن کے ساتھ 22 سیٹیں جیت لی تھیں۔ اسی طرح بی آر ایس نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں 11 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ 2019 کے انتخابات میں نو سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اب 2024 کے الیکشن میں انہی نتائج کو دہرانا علاقائی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار تلنگانہ میں بی آر ایس کے بجائے کانگریس کی حکومت ہے۔ اس لیے یہاں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط سمجھ رہی ہے۔ اسی طرح گزشتہ انتخابات میں وائی ایس آر کو حاصل شدہ 22 سیٹوں کو بچانے کا چیلنج در پیش ہے۔ کیونکہ آندھرا پردیش کے انتخابات میں بھی مقابلہ سخت ہوتا جا رہا ہے ۔

چناوی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ تین انتخابات میں مسلسل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح اس بار اسے برقرار رکھنا اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج کو مضبوطی سے آگے بڑھانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ وہیں بہار میں بی جے پی نے نتیش کمار کے ساتھ اپنا سیاسی اتحاد قائم کرلیا ہے۔ سیاسی نقطہ نظر سے کانگریس پارٹی بھی اپنے پرانی سبقت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے “انڈیا” اتحاد کو ایک مضبوط پلیٹ فارم سمجھ رہی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان پی ایل پونیا کا دعویٰ ہے کہ اتحاد انتخابات کے چوتھے مرحلے میں مختلف ریاستوں میں لوک سبھا کی 96 سیٹوں پر بھاری اکثریت سے جیتنے والا ہے۔ انھیں جنوبی بھارت کی اہم ریاستوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش اور بہار سے بھی بہترین مظاہرہ کی امید ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلے میں آج 10 ریاستوں کی جن 96 سیٹوں پر ووٹنگ ہونے والی ہے ان میں آندھرا پردیش کی 25 سیٹیں، تلنگانہ کی 17 سیٹیں، اتر پردیش کی 13 سیٹیں، مہاراشٹر کی 11، مغربی بنگال کی 8 اور مدھیہ پردیش کی 8 سیٹوں کے ساتھ ساتھ اڈیشہ کی 4، جھارکھنڈ کی 4، بہار کی 5 اور جموں و کشمیر کی 1 سیٹ شامل ہے۔ اس مرحلے میں اتر پردیش سے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو، حیدرآباد سے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی، لکھیم پور کھیری سے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی، مغربی بنگال کی بہرام پور سیٹ سے ادھیر رنجن چودھری، مغربی بنگال سے مہوا موئترا، آسنسول سے شتروگھن سنہا اور راجہ سنگھ جیسے کئی بڑے نام چناوی میدان میں ہیں۔ وہیں علاقائی پارٹیوں میں، ٹی ایم سی، سماج وادی پارٹی، جے ڈی یو اور آر جے ڈی بشمول بی آر ایس اور وائی ایس آر اپنی کارکردگی کو مضبوط اور پہلے سے بہتر بنانے کے لیےز رو آزمائ کر رہے ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کو اس چوتھے مرحلے کی ووٹنگ کے دوران کانگریس اپنی کھوئی ہوئ زمین کی بازیابی میں ، بی جے پی اپنے وقار کو بچانے میں اور علاقائی جماعتیں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی جد وجہد میں کون کس پر سبقت لے جاتا ہے۔ ویسے ایک طرف اپوزیشن اتحاد “انڈیا” اور دوسروی طرف بی جے پی کی قیادت والے “این ڈی اے” کے اپنے اپنے دعوے تو ہیں ہی۔

ایک طرف “بھارت کے آئین کو بچانے” کی ساتھ مختلف کی گارنٹی کی بات ہو رہی ہے اور دوسری طرف “بھارت کو وشو گرو بنانے” کے ساتھ ساتھ کئ طرح کی گارنٹیاں دی جا‌رہی ہیں۔ کس کے وعدے اور گارنٹیوں کو اکثریت کے ساتھ عوامی حمایت ملتی ہے، اس کا انکشاف 4 جون کو ہی ہونے والا ہے۔ سر دست تو ہمیں یہی مان کر چلنا چاہئے کہ “جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا-“