پی ایم مودی حد درجہ سنجیدہ ہیں

تاثیر،۲۸       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا انتخابات 2024 اب بالکل فائنل اسٹیج میں ہیں۔انتخابات کے ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ یکم جون بروز سنیچر مکمل ہو جائے گی۔ انتخابات کے اس آخری مرحلے میں  8 ریاستوں اور مرکز کے زیر انظام علاقوں یعنی بہار، چنڈی گڑھ، پنجاب، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، اڈیشہ، اتر پردیش اور مغربی بنگال کی باقی ماندہ  57 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوگی۔اس مر حلے میں بہار کی 8  سیٹوں پر 134، چنڈی گڑھ کی ایک سیٹ پر 19، ہماچل پردیش کی 4 سیٹوں پر 37، جھارکھنڈ کی 3 سیٹوں پر 52، اڈیشہ کی 6 سیٹوں پر 66  ،اتر پردیش کی 13 سیٹوں پر 124   ، مغربی بنگال کی 9 سیٹوں میں 124   اور پنجاب کی تمام 13 سیٹوں پر 328 اور  امیدوار یعنی کل 904 امیدوار میدان میںہیں۔اس مرحلے میں پنجاب کی تمام 13 لوک سبھا سیٹوں کے لیے ایک ساتھ انتخابات ہوں گے ۔اس لئے وہاں سب سے زیادہ 328 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس مرحلے کے ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات 2024 کی ووٹنگ کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔
  اس آخری مرحلے میں اتر پردیش کی 13 سیٹوں میں ایک وارانسی سیٹ بھی شامل ہے۔2014 میں یہاں سے پی ایم نریندر مودی کے منتخب ہونے کے بعد سے، یہ سیٹ لگاتار خبروں میں رہتی آ رہی ہے۔ اس حلقے سے 1952 سے اب تک 17 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے سات بار اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی سات بار فتح کا جھنڈا لہرایا ہے۔ ایس پی اور بی ایس پی کا ابھی تک اس سیٹ سےکھاتہ بھی نہیں کھل سکا ہے۔پی ایم مودی گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں اس سیٹ سے مسلسل جیت رہے ہیں۔ اس بار بھی پی ایم نریندر مودی بی جے پی امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔ جبکہ کانگریس کے امیدوار اجے رائے انڈیا اتحاد اور اطہر جمال لاری بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کے طور پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ مطلب صاف ہے،  پی ایم مودی اس بار بھی وارنسی میں بی جے پی کا جھنڈا بلند رکھیں گے۔
اگر بہار کے حوالے سے الیکشن کی بات کریں تو اس مرحلے کو بی جے پی کے لیے بہت اہم مانا جا رہا ہے۔ ساتویں مرحلے میں بہار کی ماندہ  8  سیٹوں پر چناوی مقابلہ ہونا ہے۔ ان میں پٹنہ صاحب، پاٹلی پترا، بکسر، آرا اور سہسرام سیٹیں شامل ہیں۔ ان سبھی سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ جبکہ اسی مرحلے میں کارا کاٹ ، نالندہ اور جہان آباد میں بھی ووٹنگ ہونی ہے۔ نالندہ سیٹ پر سیٹنگ ایم پی جے ڈی یوامیدوار کوشلیندر کمار میدان میں ہیں یہاں ان کا مقابلہ بھاکپا (مالے) امیدوار ڈاکٹر سندیپ کر رہے ہیں۔ کارا کاٹ میں این ڈی اے امیدوار اپیندر کشواہا کو آزاد امیدوار پون سنگھ نے پریشان کر رکھا ہے۔جبکہ جہان آباد میں  2019 میں تقریباََ 1700  ووٹ سے ایم پی بنےجے ڈی یو امیدوار چندریشور پرساد چندر ونشی اپنے سابقہ حریف اور آر جے ڈی امیدوا سریندر یادو سے اپنی سیٹ بچالینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، مگر ان کی عزت اس بار پوری طرح داؤ پر ہے۔
    ویسے یہ بات بالکل درست ہے کہ این ڈی اے کے حکمت عملی سازوں کے سامنے 2019 میں جیتی گئی تمام 8 سیٹیں واپس لانے کی چنوتی ہے۔ان سیٹوں میں سے بی جے پی کو آرا اور پٹنہ میں جیت کی ہیٹ ٹرک بنانے کا چیلنج درپیش ہے، وہیں بی جے پی سہسرام، بکسرسیٹوں پر اپنی جیت برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ سہسرام اور بکسر سے امیدوار بدل کر بی جے پی نے اپنے لیے ایک نیا چیلنج مول لیا ہے۔حالانکہ  بی جے پی پاٹلی پترا لوک سبھا سے جیت کی ہیٹ ٹرک لگانے کی تیاری کر چکی ہے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو نے آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو کی بڑی بیٹی اور آر جے ڈی ا میدوار میسا بھارتی کو 40 ہزار 372 ووٹوں سے شکست دی تھی۔اس کے بعد  2019 کے انتخابات میں بھی بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو نے آر جے ڈی امیدوار میسا بھارتی کو 39 ہزار 321 ووٹوں سے شکست دی۔ رام کرپال یادو تیسری بار 2024   میںپاٹلی پترا لوک سبھا سیٹ سے چناؤ لڑ رہے ہیں۔ رام کرپال یادو کو جہاں اپنی جیت برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے وہیں آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو کی بڑی بیٹی  میسا بھارتی شکست کا بدلہ لینے کے لیے تیسری بار انتخابی جنگ میں اتری ہیں۔
بہار کی دوسری اہم سیٹ پٹنہ صاحب کے سیٹنگ ایم پی روی شنکر کو  جیت برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔یہاں سے بی جے پی نے ایک بار پھر انھیں میدان میں اتارا ہے۔ جبکہ اس سیٹ سے اس اپوزیشن اتحاد کی جانب سے کانگریس ا میدوار ا نشل ابھیجیت کو میدان میں اتارا ہے۔ ابھیجیت میرا کمار کے بیٹے ہیں۔ کانگریس امیدوار ابھیجیت کے برادرانہ تانے بانے کو دھیان میں رکھ کر انھیں ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس کو امید ہے کہ اس بار کانگریس کے اپنے روایتی ووٹ کے ساتھ انھیں کشواہا برادری کی بھی حمایت ملے گی۔ ابھیجیت کے والد کشواہا ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ انشول ابھیجیت پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کو اس بار بھی اپنے کیڈر ووٹ پر پورا بھروسہ ہے۔
بکسر لوک سبھا سیٹ کی بات کریں تو پہلی بار یہ سیٹ نئےجنگجوؤں کا میدان بن گئی ہے۔ بی جے پی نے اشونی چوبے کا ٹکٹ  کاٹ کر سابق ایم ایل اے متھیلیش تیواری کو میدان میں اتاردیا ہے۔ آر جے ڈی نے اپنے سابق امیدوار جگدانندر سنگھ کوآرام کرنے کی صلاح دے کر ان کے بیٹے سابق وزیر سدھاکر سنگھ کو میدان میں اتارا ہے۔ سابق آئی پی ایس افسر آنند مشرا بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جبکہ سابق وزیرن پہلوان بھی میدان میں ہیں۔ بی جے پی کو سہسرام سیٹ پر بھی جیت کی ہیٹ ٹرک بنانے کی چنوتی ہے۔اس بار بی جے پی نے اپنے موجودہ ایم پی کا ٹکٹ کاٹ کرکے شیویش رام کو میدان میں اتارا ہے۔ وہیں کانگریس نے میرا کمار کو فرصت دے کر منوج رام کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ یعنی کل ملاکر دیکھا جائے تو بہار کی اپنی ان آٹھ سیٹوں کو اپوزیشن اتحاد سے بچا لینے کی ذمہ داری این ڈی اے کے حکمت عملی سازوں کی ہے۔ ویسے اپوزیشن اتحاد کے لئے اس آخری مر حلے میں کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ان آٹھ سیٹوں میں سے جتنی دو تین سیٹیں اپوزیشن اتحاد کو حاصل ہونگی، وہ این ڈی اے کے ’’400 پار‘‘ کے ہدف کے خلاف جائیں گی۔ایسا نہیں ہو، اس کے لئے سبھی بڑے لیڈروں کے ساتھ پی ایم مودی بھی حد درجہ سنجیدہ ہیں۔
***********