! کل کا دن آج سے بہتر ہوگا

تاثیر،۳۰       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انسانوں کو مختلف پیرایوں اور انداز میں سب سے زیادہ خدا کی رحمت کی امید دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک بڑی صفت رحمت بھی ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو کائنات کی تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ پوری کائنات رحمت الٰہی کی مظہر ہے۔ حالات خواہ جیسے بھی ہوں، ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت و نصرت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کے حوالے سے مولاناابو الکلام آزادؔ لکھتے ہیں: ’’قرآن پاک نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت کے ساتھ نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے، جس قدر رحمت ہے۔ اگر قرآن کے وہ تمام مقامات ایک جگہ جمع کیے جائیں، جہاں ’’رحمت‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے، تو ان کی تعداد تین سو سے زائد ہو جائے گی۔ اگر ان میں وہ تمام مقامات بھی شامل کرلیے جائیں، جہاں اگر چہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے، لیکن ان کا تعلق رحمت سے ہی ہے، مثلاََربوبیت، مغفرت، رافت،کرم،حلم، عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن اوّل سے آخر تک رحمت ِالٰہی کا پیام کے سوا کچھ نہیں ہے ۔‘‘(اُم الکتاب، ص 126)۔

بلا شبہہ زندگی عروج وزوال کا ایک مسلسل سفر ہے۔ خوشی، غم، کامیابی اور ناکامی زندگی کے لوازمات ہیں۔ جہاں زندگی میں خوشگوار لمحات آتے رہتے ہیں، وہیں آزمائشوں کا بھی آنا لازمی ہیں۔ انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے ، جسے اپنی چاہت کے مطابق آناً فاناً نتیجہ ظاہر ہونا چاہئے ۔ اگر خلاف توقع کوئی صور تحال پیش آجائے تو آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے وہ تھوڑی سی کوشش کے بعد مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے۔حالانکہ امید ہی وہ واحد لہر ہے، جو اس کی منجدھار میں ڈوبتی کشتی کو کنار الگا سکتی ہے۔ امید ہی وہ قیمتی سرمایہ ہے ،جو انسان کو آخری سانس تک زندگی کے تھکا دینے والے سفر میں پُر عزم رکھتا ہے۔ امید ہی انسان کو وقار اور خوداری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتی ہے۔ جبکہ منفی خیالات اور ناامیدی انسان کو زندگی کے کسی بھی امتحان میں کامیاب نہیں ہونے دیتی ہے۔ ناامیدی مسئلہ کے ممکنہ حل کو بھی دھند لادیتی ہے ۔ اُس وقت انسان کو اندھیرے کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ جبکہ ذراسی مثبت سوچ اور امید کا چراغ نامساعد حالات سے نکلنے کے لئے روشنی کا باعث بن جاتے ہیں۔ وقت کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ اس کا رنگ اٹل نہیں ہوتا۔ اگر انسان کو مشکل کا سامنا ہے تو چند لمحوں یا دنوں کے بعد ہی آسانی کا رنگ سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ حالات جس قدر بھی مشکل ہوں، آزمائش کی رات جتنی بھی لمبی اور سیاہ کیوں نہیں ہو ، ایک روشن صبح ہر شب کا مقدر ہے۔ ہر حال میں دنیاوی سہاروں کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھنی چاہئے۔ اسلام میں مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ مومن کبھی اپنے رب کی رحمت سےناامید نہیں ہوتا۔

مایوسی میں گھرے ہوئے انسان کو جب امید کی قوت ملتی ہے تو وہ ایک نئے انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اور پھر وہ اتنا کچھ کر گزرتا ہے ، جس کی قبل ازیں کوئی امید نہ تھی۔ یہ امید جب اللہ رب العزت کی ذات گرامی سے وابستہ ہو تو یہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی۔چلتے چلتے ایک مقام ایسا بھی آتا ہے، جہاں پر یہ امید،یقین اور ایمان کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تقویٰ شعار انسان، جس کی زندگی امید سے پُر ہو ، وہ امید سے عاری انسان سے بہت آگے ہوتا ہے۔’’ جو لوگ اللہ رب العزت کی رحمت سے امید کا رشتہ قائم رکھتے ہیں،وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔خواہ حالات کا جبر اور ماحول کا گھٹن کتنا بھی کیوں نہ بڑھ جائے۔ قرآن میں ارشاد ہے:اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اس کی رحمت سے تو صرف کا فر ہی مایوس ہو ا کرتے ہیں۔ (یوسف: 87)
یقین جانیں تکلیفیں، آزمائشیں ، مشکلات اور پریشانیاں یہ سب زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ان سے فرار کاراستہ اختیار کر لینا عقلمندی نہیں ہے ،بلکہ ان کو حق کے راستے کی سنتیں سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کئے جانے میں ہی نجات پوشیدہ ہے۔ حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، بدلتے رہتے ہیں۔ آپ حال کو پس پشت ڈال کر مستقبل میں نہ جا الجھیں،بلکہ اسے اللہ پر چھوڑیں۔ حال میں خوش رہنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کا مستقبل بھی تابناک بن جائے۔ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ آپ حال پر کس قدر مطمئن ہیں۔ وہ آپ کا مستقبل بہتر سے بہترین بنانے میں پوری کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا ،اگر امید باندھنی ہو تواس سے باندھیں ، جس کے حکم سے ایک بنجر زمین بھی زرخیز ہو جاتی ہے۔ وہ صحرا کو بھی نخلستان بنا دیتا ہے۔اس لئے یہ امید رکھیں کہ ہر اندھیرے کے بعد اُجالا تو ہونے ہی والا ہے۔

آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے الٹی سیدھی سیکڑوں بے جا خواہشات سے اپنی زندگی کو پریشان کر رکھا ہے اور ہماری امیدیں دنیا سے شروع ہو کر دنیا پر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ خود ہی’’متاع الغرور‘‘ کی تفسیریں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبگینۂ دل کو بار بار ٹھیس لگتی ہے اور بار بار ہم مایوسی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ کاش ہم ایک بار یقین اور خلوص سے اس در پے اپنی جبین نیاز خم کر دیتے، جہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کو امید کی ایسی لازوال نعمت ملتی ہے، جو شکست خوردگی کی ذلت سے ہمکنار نہیں ہونےدیتی۔چنانچہ اگر آپ کسی بھی پریشانی یا مشکل میں مبتلا ہیں تو تو کل ، صبر اور دعا سے کام لیجئے۔ صبر اور دعاد وایسی چیزیں ہیں، جو انسان کی ناامیدی کے اثرات کو زائل کرنے میں بہت معاون ہوتی ہیں۔اس لیے موجودہ حالات کو مستقبل کا ضامن بالکل نہ سمجھیے۔ کیونکہ تاریکی بالآخر روشنی میں بدلتی ہی ہے۔ اس لئے وقتی پریشانی سے نہیں گھبرائیے۔ جس نے زندگی جیسی بڑی نعمت عطا کی ہے ، وہ زندگی کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ آپ کو اُس رب سے واسطہ ہے جو محض ایک ’’کن‘‘ سے تقدیر بدل دینے پر قادر ہے۔ لہٰذا زندگی کے ہر معاملے میں بہتری کاگمان رکھیں اور امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑیں۔ یقین کیجئے، اِنشاء اللہ کل کا دن آج سے بہتر ہوگا !
**********