کینیڈا نے پہلی بار چار ’انتہا پسند‘ اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیاں عائدکردیں

تاثیر،۱۶       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اٹاوا،17مئی:کینیڈا نے جمعرات کو پہلی بار مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کر دیں جنہیں وزارتِ خارجہ نے “انتہا پسند” قرار دیا اور کہا کہ اوٹاوا فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد کو روکنے کے لیے اضافی اقدامات پر غور کر رہا تھا۔امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر اسرائیلی اتحادیوں کے ایسے ہی اقدامات کی پیروی میں کینیڈا کی پابندیاں ان چار افراد کے خلاف ہیں جن پر فلسطینیوں اور ان کی املاک کے خلاف براہِ راست یا بالواسطہ تشدد میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ پابندیاں ان افراد سے کسی طرح کی ڈیلنگ کو روکتی ہیں اور انہیں کینیڈا کے لیے ناقابلِ قبول اور غیر مجاز قرار دیتی ہیں۔مغربی کنارے میں آباد کاروں کا تشدد اسرائیل کے مغربی اتحادیوں میں بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہے۔ یورپی یونین اور نیوزی لینڈ نے بھی پرتشدد آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں اور اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔کینیڈین وزیرِ خارجہ میلانی جولی نے بیان میں کہا، “مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسند اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد میں اضافہ انتہائی پریشان کن ہے اور اس سے خطے کے امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے کہا، “ان اقدامات سے ہم ایک واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ انتہا پسند آباد کاروں کے تشدد کی کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں اور اس طرح کے تشدد کے مرتکب افراد کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
کینیڈا نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور اس ماہ کے شروع میں ان افراد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن پر گروپ کو عسکری تربیت اور وسائل فراہم کرنے کا الزام تھا۔کینیڈا نے جمعرات کو غزہ میں انسانی امداد کے لیے 65 ملین کینیڈین ڈالر (47.8 ملین ڈالر) کا بھی وعدہ کیا۔ فنڈز میں اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی اونروا کے لیے پہلے سے اعلان کردہ 25 ملین اور اونروا اور خطے کے دیگر امدادی گروپوں کے لیے اضافی 40 ملین کینیڈین ڈالر شامل ہیں۔اسرائیل نے 1967 کی شرقِ اوسط جنگ میں مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے یہ علاقہ فوجی قبضے میں ہے جبکہ اسرائیلی بستیوں میں مسلسل توسیع ہوتی رہی ہے۔ وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی مذہبی قوم پرست حکومت نے بستیوں کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے واشنگٹن کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا ہے۔فروری میں امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ واشنگٹن نے مغربی کنارے کی بستیوں کو بین الاقوامی قانون سے متصادم سمجھا اور امریکی مؤقف پر واپس آ گیا جسے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے الٹ دیا تھا۔زیادہ تر عالمی طاقتیں ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے کے تاریخی دعوؤں کا حوالہ دیتے ہوئے اور اسے ایک حفاظتی حصار قرار دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرتا ہے۔ فلسطینی مغربی کنارے کو مستقبل کی آزاد ریاست کے حصے کے طور پر تصور کرتے ہیں جس میں غزہ اور مشرقی یروشلم شامل ہیں۔