تاثیر،۹ مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
دیر سے ہی سہی بہار بی جے پی کے ریاستی صدر اور ڈپٹی سی ایم سمراٹ چودھری بھی اب راجد لیڈر اور سابق ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو کی طرح بہار کے بے روزگار نوجوانوں کی روزی روزگار کی باتیں کرنے لگے ہیں۔حالانکہ اب تک لوک سبھا انتخابات کے تین مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے پارٹی کے مرکزی لیڈروں کی طرح بہار کےلیڈروں کی چناوی تقریریں بھی رام مندر، چارہ گھوٹالہ ، جنگل راج اور اقربا پروری کے ارد گرد ہی گھوما کرتی تھیں۔جبکہ پہلے مرحلے سے ہی تیجسوی یادو کے انتخابی جلسوں میں بے روزگاری کے مسئلہ کو حل کرنے کی بات گونجتی رہتی تھی۔
یہ کھلی حقیقت ہے کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کے شروع ہونے سے پہلے سے ہی ، آر جے ڈی کے حکمت عملی سازوں نے روزگار کو ایک مسئلہ بنا کر نوجوان ووٹروں پر توجہ مرکوز کی۔چنانچہ تیجسوی یادو شروع سے ہی انتخابی جلسوںمیں روزگار کے مسئلے کو اٹھاتے رہے ہیں ۔’’ 17 سال بمقابلہ17 ماہ‘‘ کا نعرہ بھی نوجوانوں کو متاثر کرنے لگا۔ سیاسی حلقوں کی بات کریں تو 2015 کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح’’ ریزرویشن کو ختم کیا جائے گا‘‘ کا مدعا کافی مؤثر ثابت ہوا تھا ٹھیک اسی طرح اس بار روزگار کے معاملے پر تیجسوی یادو کے بیانات کا اثر نوجوانوں پر پڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے بیان کو مؤثر ڈھنگ سے پیش کرنے کے لئے تیجسوی یادو ایوان میں دیے گئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے بیان کا بھی خوب استعمال کرتے رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اساتذہ کے عہدے پر تقرری کے حوالے سے ایک بار کہہ دیا تھا،’’ پیسہ کہاں سے لاؤ گے، باپ کے یہاں سے،جیل سے لے لے آؤ گے ؟‘‘ نتیش کمار کے اس بیان کو بھی تیجسوی یادو اپنے انتخابی جلسوں میں آئے لوگوں کو بار بار سنا کر متاتر کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ دوسری جانب بی جے پی کے لوگ اپنا وہی پرانا راگ الاپتے رہے ہیں۔مگر جب انھیں ہوش آیا ہے تب تک تین مرحلوں کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے۔ بی جے پی کے چناوی حکمت کاروں نے دیر سے ہی سہی اب اپنی کمر کس لی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر اور نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری بھی جارحانہ انداز میں میدان میں اتر کر روزگار کے حوالے سے اونچی آواز میں بولنے لگے ہیں۔
چند دنوں پہلے بی جے پی کے ریاستی صدر سمراٹ چودھری نے تیجسوی یادو کے روزگار کے دعوے پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا،’’موجودہ این ڈی اے حکومت 2025 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے 10 لاکھ سرکاری نوکریاں فراہم کرے گی۔ بہار حکومت وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے وعدے پر سنجیدہ ہے اور 10 لاکھ سرکاری نوکریاں دینے کے وعدے کو بھی پورا کرے گی۔ یہ لالو کی حکومت نہیں ہے، جو کچھ ایک طرف کچھ کرے گی اور دوسری طرف کچھ کرے گی۔ لیکن این ڈی اے حکومت بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمتوں سے نوجوانوں کو جوڑ نے میں یقین رکھتی ہے۔ بھرتیوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی مکمل فہرست کو عام کرنے میں یقین رکھتی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ تیجسوی یادو اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جب وہ بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے 5 لاکھ سرکاری نوکریاں فراہم کی تھیں۔ تیجسوی یادو کے اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی کئی بار یہ کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر اساتذہ کے عہدوں کے ساتھ ساتھ جتنے دوسرے عہدوں پر تقرریاں ہوئی ہیں، وہ میرے قلم سے ہوئی ہیں۔ اب کس کے دعوے میں دم ہے یہ پبلک اچھی طرح سے جانتی ہے اور اس کے ساتھ بہار کے تمام رائے دہندگان بھی اب دھیرے دھیرے یہ دکھنے لگے ہیں کہ بی جے پی بھی اب روزی روٹی کی باتیں کرنے لگی ہے اور یہ بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے خوش آیند بات ہے۔
بہار بی جے پی سے الگ ہٹ کر اگر مرکز کی بات کی جائے تو ابھی تک وہاں کی گاڑی تقریباََ پرانے ٹریک پر ہی چل رہی ہے۔ تھوڑا بہت فرق بھی آرہا ہے تو اس میں ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کی بات نہیں جڑ پا رہی ہے۔ ’’مندر مسجد ‘‘اور’’ہندو مسلم ‘‘سے بات تھوڑی آگے بھی بڑھتی ہے تو امبانی اور اڈانی پر آکر رک جاتی ہے۔اِدھر چوتھے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے پی ایم نریندر مودی نے تلنگانہ میں تین عوامی جلسوں سے خطاب کیا تھا۔انھوں نے ان جلسوں میں ملک کے بڑے صنعت کار امبانی اوراڈانی کے حوالے راہل گاندھی پر یہ سوال اٹھایا کہ انتخابات کے دوران اچانک امبانی اوراڈانی کا نام لینا کیوں بھول گئے ہیں ؟ ظاہر ہے پی ایم مودی اور دوسرے مرکزی وزیر ابھی تک ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے معالے میں اپنا موقف نہیں رکھنے سے قاصرہیں۔ ادھر بہار سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو ابھی تک ہندؤں کی گھٹتی اور مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کی چناوی الجھن میں الجھے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے تمام لیڈروں کو سمراٹ چودھری سے کچھ سیکھنا چاہئے۔