تاثیر،۸ مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن
ملک میں جاری لوک سبھا انتخابات کے درمیان انڈین اوورسیز کانگریس کے چیئرمین ستیہ نارائن گنگا رام پترودا عرف سیم پترودا نے’’ وراثت ٹیکس ‘‘کے بعد بھارت کے نسلی تنوع سے متعلق ایک بیان د ےکر بی جے پی کو بیٹھے بٹھائے ایک’ایشو‘ تھما دیا ہے۔حالانکہ کانگریس نے سیم پترودا کے اس بیان سے نہ صرف اپنا پلّہ جھاڑ لیا ہےبلکہ اسے بد قسمتی قرار د یتے ہوئے اس کی تردی بھی کر دی ہے۔ سیم پترودا کے بیان پرکانگریس کے جنرل سکریٹری اور میڈیا انچارج جے رام رمیش کا کہنا ہے، ’’سیم پترودا کی طرف سے بھارت کے تنوع سے متعلق جو تشبیہات دی گئی ہیں، وہ غلط، بدقسمتی سے پُر اور ناقابل قبول ہیں۔ کانگریس خود کو ان تشبیہات سے مکمل طور پر الگ کرتی ہے اور ان کی تردید کرتی ہے۔‘‘ مگر بی جے پی اس بیان کو اپنے لئے ایک بہترین موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔چنانچہ وہ اس بیان کو جنوبی بھارت میں بڑا ایشو بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پی ایم نریندر مودی نے بھی تلنگانہ کے ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر وارنگل میں کل( 7 مئی) منعقد ایک انتخابی جلسہ عام میں یہ مسئلہ اٹھا کر اشارہ دے دیا ہے کہ چناؤ میں اس کا بھر پور فائدہ اٹھا یا جائے گا۔پی ایم نریندر مودی نے وارنگل میں کہا ’’ جب بی جے پی نے درو پدی مرمو، جو قبائلی برادری سے آتی ہیں، صدر بنانے کا فیصلہ کیا تھا، تو کانگریس نے ان کی امیدواری کی مخالفت کی تھی۔ اب یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ کانگریس والوں نے سیاہ جلد کی وجہ سے ہی ان کی مخالفت کی تھی۔ شاید کانگریس والوں نے ان (دروپدی مرمو) کو بھی افریقی ہی سمجھا تھا۔ ‘‘ مانا جاتا ہے کہ یہ تنازعہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں حساس ہوسکتا ہے ، جہاں قبائلی برادریوں کی اکثریت ہے۔ بی جے پی بھی یہی چاہتی ہے کہ جنوبی بھارت کی سیاہ جلد پر سیم پترودا کا تبصرہ کانگریس کی چناوی راہ میں مشکل بن کر کھڑا ہو جائے۔سیاسی مبصرین بھی یہ مانتے ہیں کہ اگر بی جے پی سیم پترودا کے مذکورہ بیان کو ایک بڑا ایشو بنانے میںبی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو اگلے مرحلے میں اسے آندھرا پردیش (25 لوک سبھا سیٹیں) اور تلنگانہ (17 لوک سبھا سیٹوں) میں اسے اچھا خاصہ فائدہ مل سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی اور جن سینا کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی ہے۔ پارٹی کو لوک سبھا میں چھ اور اسمبلی میں 10 سیٹیں ملی ہیں۔ اس میں تین لوک سبھا سیٹوں پر اس کا دعویٰ مضبوط بتایا جاتا ہے۔ اس بار بی جے پی تلنگانہ کی 17 لوک سبھا سیٹوں پر اپنے لئے زیادہ امکانات دیکھ رہی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں وہ تلنگانہ میں آٹھ سے دس لوک سبھا سیٹوں پر اپنی جیت یقینی سمجھ رہی تھیں۔ تاہم گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی زبردست جیت نے ریاست کے سیاسی تانے بانے میں ایک بڑی تبدیلی لائی ہے ۔نتیجے کے طور پر اب ریاست میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان قریبی لڑائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہیں بی آر ایس بھی اپنی واپسی کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ مسلم اور قبائلی برادریوں کی اکثریتی آبادی کے درمیان مسلم ریزرویشن کا مسئلہ اٹھاکر بی جے پی نے بڑا چناوی کھیل کھیلا ہے۔ وہیں آندھرا پردیش میں ہی ٹی ڈی پی نے مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کا وعدہ کرکے اپنی ہی حلیف پارٹی بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک ہی اتحاد کے درمیان متضاد ایشوز پر الیکشن لڑنے سے کنفیوژن پیدا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا نقصان ٹی ڈی پی اور بی جے پی دونوں کو ہو سکتا ہے۔
اِدھر آندھرا پردیش کے بی جے پی لیڈر ایس کے احمد کے ساتھ ساتھدوسرے لیڈروں کا یہ کہنا ہے کہ جنوبی بھارت کے لوگوں کے درمیان کبھی بھی نسلی جھگڑا نہیں ہوا ہے۔ لیکن درویڑین سیاست کے اثر ات نے جنوبی ہند کے لوگوں میں ہندی زبان اور سیاہ فام لوگوں کے تئیں عام لوگوں کے جذبات بر انگیختہ ہو گئے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیم پترودا کا بیان جنوبی ہند کے لوگوں کو ان کے جلد کے رنگ کی بنیاد پر ملک کے دیگر لوگوں سے الگ کرنے کی کوشش ہے، جنوبی ہند کے لوگ اسے ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ان کا الزام ہے کہ کانگریس نے آزادی کے دور میں ہی مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا تھا۔ آج ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کر کے راہل گاندھی ہندو برادری کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیم پترودھا نے جس طرح سے یہ بیان دیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب کانگریس جلد کے رنگ کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف شناخت دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے اتحاد کےلئےخطرناک ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب بی بی سی سمیت دوسرے تقریباََ تمام غیر جانبدار نیوز چینلوں کا کہنا ہے کہ سیاسی بحث ومباحثہ کے درمیان صرف یہی ایک حقیقت ہے کہ سام پترودا کا بیان مثبت نقطۂ نظر سے دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں یہی کہا ہے’’ بھارت ایک بہت بڑا اور متنوع ملک ہے۔ یہاں شمال مشرق کے لوگ چین کے لوگوں کی طرح نظر آتے ہیں، مغربی سرحد پر رہنے والے افغان نژاد لوگوں کی طرح نظر آتے ہیں اور جنوبی بھارت کے لوگ اپنی سیاہ جلد کی وجہ سے جنوبی افریقہ کے لوگوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس تنوع کے باوجود پورا بھارتی سماج متحد ہے اور ایک ساتھ رہتا ہے اور یہی بھارت کی اصل طاقت ہے۔‘‘ ظاہر ہےسیم پترودا کا بیان مثبت معنی میں دیا گیا تھا، لیکن الیکشن کے وقت اس کی تشریح مختلف ڈھنگ سے کی جارہی ہے۔ معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کانگریس نےفوراً ایک بیان جاری کرکے پترودا کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے اس سے خود کو الگ کر لینا ہی بہتر سمجھا ہے۔ کانگریس کو معلوم ہے کہ جواب دیا جائے گا تو بات بڑھانے والوں کو موقع ملے گا۔ مگر بی جے پی ہے کہ موجودہ چناوی ماحول میں اس بیان کوایک بڑا ایشو بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔بی جے پی کو یقین ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔
*********