تیسرا مرحلہ بی جے پی کے لئے چیلنجنگ

تاثیر،۷       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلےکی ووٹنگ کل 7 مئی کو اختتام پذیر ہو گئی۔ اس دور میں 11 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام  علاقوں کی 93 سیٹوں پر رائے دہنگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ اس کے ساتھ ہی وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر صحت منسکھ منڈاویہ سمیت سات وزراء کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم میںبند ہو گیا۔ اس مرحلے کی ووٹنگ سے دگ وجے سنگھ اور شیوراج سنگھ چوہان سمیت پانچ سابق وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کی اہلیہ اور مین پوری کی ایم پی ڈمپل یادو کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے اس تیسرے مرحلے میںجن 93سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ہے، گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 71 لوک سبھا سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ وہیں کانگریس کو صرف چار سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔اگر ہم ان سیٹوں پر این ڈی اے کے پچھلے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 2019  میں جیتنے والی سیٹوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ یعنی 78 تھی ۔جبکہ موجودہ ’’اپوزیشن  اتحاد‘‘ سے وابستہ جماعتوں نے 12 نشستیں حاصل کی تھیں۔ دیگر جماعتوں کو تین نشستیں ملی تھیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات کا یہ تیسرا مرحلہ سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے بی جے پی کے لیے یہ بہت ہی اہم مرحلہ ہے۔ اس تیسرے مرحلے میں جن ریاستوں میں کل ووٹنگ ہوئی ہےان میں گجرات، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں۔ یہ تینوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے گڑھ ہیں۔ ایسی صورت حال میں کانگریس کے امکانات تبھی بڑھیں گے جب این ڈی اے کے ووٹوں میں زبردست کمی آئے گی۔
انتخابات کے تیسرے مرحلے میںجن 93 سیٹوں کے لئے کل ووٹنگ ہوئی ہے، ان میں سے بی جے پی اس بار اکیلے 81 سیٹوں پر مقابلے میں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے ان 93 میں سے 38 سیٹیں 50-60 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ جیتی تھیں۔  20 سیٹوں پر اس کا ووٹ شیئر 60 سے 70 فیصد کے درمیان تھا۔ظاہر ہے نتائج کے کانگریس کے حق میں آنے کے لیے بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ اس الیکشن کے پہلے دو مرحلوں میںووٹنگ فیصد میں بہت کمی آئی ہے۔ اسے رائے دہندگان میں ووٹنگ کے تئیں عدم دلچسپی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔حالانکہ کم ووٹنگ کو اپوزیشن جماعتیں اپنے حق میں بتا رہی ہیں۔ لیکن اگر ہم 2019 کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو 62 نشستوں میں سے ،جہاں ووٹنگ میں کمی آئی تھی، 14 سیٹوں پر جیتنے والے تبدیل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ جن 31 نشستوں پر زیادہ ووٹنگ ہوئی، ان میں سے 9 پر موجودہ امیدوار ہار گئے تھے۔
اگرجیت اور ہار کے لحاظ سے ریاست وار جائزہ لیا جاتا ہے تو سب سے پہلے یہی بات ذہن میں آتی ہے کہ گجرات بی جے پی کا مضبوط قلعہ ہے۔ انتخابات میںگجراتی شناخت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ دونوں اسی ریاست سے آتے ہیں۔اسی وجہ سے بی جے پی ایک بار پھر یہاں کی تمام 26 سیٹیں جیتنے کی امید کر رہی ہے ۔ اس کی وجہ بھی ہے اور یہ ہے کہ ووٹ شیئر کے لحاظ سے پورے ملک میں کانگریس پر بی جے پی کی برتری 19 فیصد ہے اور گجرات میں یہ 30 فیصد ہے۔اسی طرح مغربی بنگال میں، جن چار سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ہے، ان میں سے تین سیٹوں (مالدہ، مرشد آباد، جنگی پور) میں مسلم ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔  2019 میں، کانگریس نے مالدہ جنوبی سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ کانگریس اور ترنمول کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے، بی جے پی کو مالدہ شمالی سیٹ ملی تھی۔ اس بار ان کی نظر کانگریس اوربائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد اور اقلیتی ووٹوں پر ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کو 63 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے اور اسی بنیاد پر ٹی ایم سی دوبارہ اس سیٹوں پر اپنی جیت کا دعویٰ کر رہی ہے۔
اتر پردیش کے مغربی حصے اور یادو بیلٹ کی کچھ سیٹوں کو ملاکر کل دس سیٹوں پر کل ووٹنگ ہو ئی ہے۔ان میں سے ایس پی اوربی ایس پی اتحاد نے سال 2019 میں دو سیٹیں جیتی تھیں۔  2019 میں 70 فیصد سے زیادہ مسلمانوں، یادؤں اور جاٹوں نے عظیم اتحاد کی حمایت کی تھی۔ اس بار اس تناسب میں کمی آسکتی ہے کیونکہ بی ایس پی اکیلے الیکشن لڑ رہی ہے۔ کرناٹک میں پرجول ریوانّا جنسی ہراسانی کیس الیکشن کے مزاج پر پوری طرح سے چھایا ہوا رہا ہے۔ اس کا اثر ووٹنگ پر پڑنا طے ہے۔اس بار شمالی اور وسطی کرناٹک کی 14 سیٹوں کے لیے انتخابات ہوئے ہیں۔ 2019 میں بی جے پی نے تمام سیٹوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ مدھیہ پردیش کی بات کی جائے تو نئے وزیر اعلیٰ اور شیوراج سنگھ چوہان کے متحد رہنے کی وجہ سے ریاست کی بی جے پی یونٹ کی نئی قیادت کو یہ یقین ہے کہ پارٹی اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ دوسری جانب خاندانی جھگڑے کی وجہ سے، مہاراشٹر میں بارامتی سیٹ پر مقابلہ دلچسپ ہو گیا ہے، کیونکہ کانگریس کی سیٹنگ ایم پی سپریا سولے اپنی بھابھی اور اجیت پوار کی بیوی سنیترا پوار کے مدمقابل ہیں۔کل مہاراشٹر کی جن 11 سیٹوں پر ووٹنگ ہو ئی ہے، 2019 میں این ڈی اے نے ان میں سے سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ریاست بہار میں تیسرے مرحلے کی کی ووٹنگ کی با ت بھی کم اہم نہیں ہے۔وہاں شام چھ بجے تک 60 فیصد ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر چکے تھے۔ بڑھے ہوئے اس ووٹ فیصد کو این ڈی اے کے لوگ اپنے حق بتا رہے ہیں۔ دوسری جانب راجد سپریمو لالو پرساد یادو بھی تال ٹھوک رہے ہیں۔ سپول سیٹ پرجے ڈی یو امیدوار دلیشور کامت اور آر جے ڈی امیدوار چندر ہال چوپال، مدھے پورہ سیٹ پر جے ڈی یو امیدوار دنیش چندر یادو اور آر جے ڈی امیدوار ڈاکٹر کمار چندر دیپ، کھگڑیا سیٹ پر ایل جے پی (آر) راجیش ورما اور سی پی آئی (ایم) امیدوار سنجے کمار سنگھ، ارریہ سیٹ پر بی جے پی کے پردیپ سنگھ اور آر جے ڈی امیدوار شاہنواز عالم اور جھنجھار پور سیٹ پر جے ڈی یو امیدوار رام پریت منڈل اور وی آئی پی امیدوار سمن مہاسیٹھ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔لیکن انتخابات کے اس تیسرے مرحلے میں اصل مقابلہ تو این ڈی اے اور اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ کے درمیان ہے۔ سیاسی تجزیہ کا ریہ مانتے ہیں کہ 93  سیٹوں میں سے کم سے کم 71 سیٹوں پر کامیاب ہونا بی جےپی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
********************