راج گڑھ لوک سبھا سیٹ کا درجۂ حرارت آسمان پر

تاثیر،۵       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

اس بار مدھیہ پردیش کی راج گڑھ لوک سبھا سیٹ پر الیکشن نے سیاسی درجہ حرارت کو کافی بڑھا دیا ہے۔ تقریباً ایک دہائی کے بعد اس سیٹ پر اتنا جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے۔ لوگ اس بار کے انتخابات میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے روڈمل ناگر نے اس سیٹ پر دو بار آسان جیت درج کی ہے۔ پچھلی بار وہ 4 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے۔  قیاس کیا جارہا تھا کہ اس بار بھی مقابلہ یک طرفہ ہوگا اور ناگر مل آسانی سے جیت جائیں گےلیکن ، اس سیٹ پر دگ وجے سنگھ کے انتخابی جنگ میں اترنے کے بعد منظرنامہ بدل گیا ہے۔ بد لے ہوئے حالات کے مد نظر اس شدید گرمی میں اب ناگر مل کو بھی دور افتادہ علاقوں میںجاکر پسینے بہانے پڑ رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ دگ وجے سنگھ کی 32 سال بعد واپسی ہوئی ہے۔ ان کی واپسی سے بی جے پی کی پریشانی ضرور بڑھی ہے لیکن ،اس کا مطلب یہ ہے ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔انھیں بھی اپنی سیاسی آبرو بچانے کے لئے دیہی علاقوں کی خاک چھاننی پڑ رہی ہے۔ڈگ وجے سنگھ کے ساتھ ان کے بیٹے اور ایم ایل اے جے وردھن سنگھ اور ان کے چھوٹے بھائی لکشمن سنگھ بھی پسینے بہا رہے ہیں۔تینوں راج گڑھ کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کی یاد دلا رہے ہیں۔ اپنی وفاداری کی دہائی دیتے ہوئے کانگریس پارٹی کے منشور کو پارٹی کا گارنٹی کارڈ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں۔
  راج گڑھ کانگریس کی روایتی سیٹ رہی ہے۔ اس سیٹ سے لکشمن سنگھ ایم پی رہ چکے ہیں۔ لیکن، انہوں نے یہ سیٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے طور پر جیتی تھی۔ اس بار انہیں اسمبلی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ سیٹ کانگریس کی روایتی سیٹ اس لئے مانی جاتی ہے کیوں کہ 1952 سے کانگریس اسے 9 بار جیت چکی ہے۔ بھارتیہ جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ سیٹ 6 بار جیتی ہے۔ دو بار یہ سیٹ جنتا پارٹی کے امیدواروں نے جیتی تھی جبکہ ایک بارایک آزاد امیدوار کے کھاتے میں گئی تھی۔دگ وجے سنگھ نے 1994 میں یہ سیٹ چھوڑ دی تھی۔ ا س کے بعد دگ وجے سنگھ کے بھائی لکشمن سنگھ نے کبھی کانگریس اور کبھی بی جے پی امیدوار کے طور پر اس سیٹ کو جیتا تھا۔ سال 2009 میں بی جے پی امیدوار لکشمن سنگھ کو کانگریس کے نارائن سنگھ امبالے نے شکست دی تھی۔ 2014 سے اس سیٹ پر بی جے پی کے روڈ مل ناگر ہی قابض ہیں۔
اس بار راج گڑھ لوک سبھا سیٹ پر تیز ہوا چل رہی ہے لیکن، ہوا کس طرف ہے؟ یہ معلوم کرنا مشکل ہے۔روڈمل ناگر اور
دگ وجے سنگھ ایک دوسرے کے سامنے چیلنج بن کر کھڑے ہیں۔ اس سیٹ پر طویل عرصے کے بعد واپسی اپنے آپ میںدگ وجئے سنگھ کے لیے  آسان نہیں ہے، لیکن ناگر کو ووٹروں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دگ وجے سنگھ کی عمر کے بعض قریبی لوگوں کا ماننا ہے طویل عرصے تک سیاست سے دور رہنا اور پھر اچانک واپس آنا ان کے لئے  کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے ’’ آج وہ اتنے سالوں کے بعد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز میونسپل کونسل کا الیکشن لڑ کر کیا تھا۔پھر وہ سیاست میں کافی سرگرم ہو گئے۔ انھیں اس کا فائدہ بھی ہوا۔ لیکن، جو لوگ کبھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے، ان میں سےاکثر بوڑھے ہو گئے ہیں یا کچھ خدا کو پیارے ہو گئے ہیں۔ نئی نسل نے نہ تو ایم پی کے طور پر ان کا دور دیکھا ہے اور نہ ہی وزیر اعلی کے طور پر۔ اس وجہ سے و ہ دگ وجے سنگھ سے نہیں جڑ پا رہےہیں۔
اس کے علاوہ دگ وجے سنگھ کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں اور کہتے پھر رہے ہیں ’’بھارتیہ جنتا پارٹی مجھ پر الزام لگاتی رہتی ہے کہ میں مسلم حامی اور سناتن مخالف ہوں، لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں ایک اچھا ہندو ہوں۔‘‘ پی ایم نریندر مودی کے بارے میں وہ کہتے ہیں،’’ مودی جی کبھی ایک راستے پر نہیں چلتے ہیں،وہ ترقی کی بات ضرور کرتے ہیں، لیکن ووٹنگ کے آخری دنوں میں ان کی تان پولرائزیشن پر ہی ٹوٹتی ہے۔وہ لوگوں کو غلط راستے پر لے جانے کی کوشش کر نے لگتے ہیں۔‘‘ دوسری جانب موجودہ ایم پی روڈمل ناگر بھی ان دنوں اکثر پسینہ سے تر بتر نظر آرہے ہیں۔ انہیں امید یہ قطعی امید نہیں تھی کہ اس بار کانگریس ان کے خلاف اتنے طاقتور لیڈر کو میدان میں اتارے گی۔اس وجہ سے ان کو پی ایم کی شبیہ پر بھروسہ ہے۔ وہ اکثر پی ایم کے ’’ترقی کے ماڈل‘‘  اور رام مندر کے تقدس کی بات کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ 2047 تک  بھارت ’’وشو گرو‘‘ بن جائے گا۔وہ لوگوں سےپی ایم نریندر مودی کو تیسری مدت کے لیے ووٹ مانگتے نظر آ رہے ہیں۔ روڈمل ناگر کو اس بار اپنے خلاف ’’اینٹی انکمبنسی‘‘ کا بھی خطرہ ستا رہا ہے۔ ان پر الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے الگ تھلگ رہنے کا الزام ہے۔ اس الزام سے خود بچانے کے لئے بیسیوں طرح کی صفائی انھیں دینی پڑ رہی ہے۔
اِدھرراج گڑھ کے عام ووٹر اپنے پتّے نہیں کھول رہے ہیں۔ لوگ کھل کر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ اور کیمرے کے سامنے تو کچھ بولنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔کچھ پی ایم نریندر مودی کا چہرہ دیکھ کر ووٹ دینا چاہتے ہیں تو کچھ اپنے لوک سبھا حلقے میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔کل تک جو لوگ بی جے پی کے کھلے حمایتی تھےوہ بھی اب مقامی امیدوار کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔بعض لوگ کھلے عام یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں، ’’ عوام کا بھلا چاہنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ علاقے کی پس ماندگی سے کسی کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔‘‘
  راج گڑھ ایم پی کی 29 لوک سبھا سیٹ میں سے ایک ہے۔ وہاں کل یعنی 7 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ دگ وجے سنگھ اس چناؤ کو اپنا آخری چناؤ بتا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہارنے کے بعد وہ چناوی سیاست سے سنیاس لے لینگے۔جبکہ بی جے پی کے روڈ مل ناگر اس سیٹ سے ہیٹ ٹریک بنانے کی جد و جہد کر رہے ہیں۔جیت کس کی اور ہار کس کی ہوگی،اس بارے میں کوئی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا ہے۔  صرف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ برسوں بعد اس سیٹ پر انتخابی درجۂ حرارت آسمان پر پہنچ گیا ہے۔
************