ملک کے عوام کو نفرت پسند نہیں

تاثیر،۱۶       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

لوک سبھا انتخابات کے چار مرحلوں کے لیے ووٹنگ ہو چکی ہے۔ حکومت سازی کے سلسلے میںچناوی تجزیہ کار اپنے اپنے ڈھنگ سے قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں۔کوئی 4 سو پار پر منفی تبصرہ کر رہا ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اپوزیشن خواہ جتنی بھی طاقت کیوں نہ نگا لے حکومت تو بنے گی این ڈی اے کی ہی۔اِدھر بی جے پی کا بھی ماننا ہے کہ این ڈی اے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنا نے جا رہی ہے۔مگر اپوزیشن اتحاد کا دعویٰ ہے کہ 4 جون کو بی جے پی کی رخصتی یقینی ہے۔ایسے میں لیڈروں کے دعوؤں پرملک کے سیدھے سادے عوام کا بالکل بھروسہ نہیں ہے۔جن لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر لیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ ہم نے اپنا کام کر لیا ہے۔ اب چاہے جس کی بھی حکومت بنے، ہم کو تو اسی حال میں جینا ہے۔جو لوگ انتخابات کے پانچویں، چھٹھے اور ساتویں مرحلے میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے والے ہیں ان میں سے اکثر اپنے پتّے نہیں کھول رہے ہیں۔جو تھوڑے بہت کسی نہ کسی پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں بھی پہلے جیسا جوش و خروش نظر نہیں آ رہا ہے ۔

پچھلے دنوںجب ایک انٹرویو میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے پوچھا گیا کہ 272 تک کے جادوئی اعداد تک نہیں پہنچ پانے کی صورت میں بی جے پی کے پاس کوئی ’’پلان۔ بی‘‘ ہے ؟ اس کے جواب میں امت شاہ کا کہنا تھا، ’’پلان ۔بی‘‘ تبھی بنایا جاتا ہے جب’’ پلان۔ اے‘‘ کی کامیابی کا امکان 60 فیصد سے کم ہو۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ پی ایم نریندر مودی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔ جن لوگوں نے سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے، وہ جانتے ہیں کہ پی ایم نریندر مودی کیا ہیں اور انھیں 400 سے زائد سیٹیوں کی کیوں ضرورت ہے۔ ریزرویشن ختم کر دینے کے سوال پرامت شاہ کا کہنا تھا ، ’’ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جب تک بی جے پی کا ایک بھی ایم پی ہے، کوئی بھی ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ امت شاہ کا دعویٰ تھا کہ نریندر مودی سے بڑا ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن کا کوئی حامی نہیں ہے۔ ’’اب کی بار 400 پار‘‘ کے حوالے سے، ایک دوسرے انٹر ویو میں، امت شاہ کا جواب تھا کہ گزشتہ 10 برسوں میں مرکز میں بی جے پی حکومت کے پاس آئین کو تبدیل کرنے کی اکثریت تھی۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ راہل بابا اینڈ کمپنی کچھ کہے گی اور ملک اسے قبول کرلے گا؟ ملک نے خود ہمیں اکثریت دی ہے۔ ہم یقینی طور پر 400 سے زائدسیٹیں چاہتے ہیں کیونکہ ہم ملک کی سیاست میں استحکام لانا چاہتے ہیں۔ ہمیں ملک کی سرحدوں کو محفوظ رکھنا ہے اور ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانا ہے۔‘‘

اِدھر آرجے ڈی لیڈر منوج جھا بی جے پی کے دعوے کو خارج کرتے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ بی جے پی کے پاس آئین کو تباہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔منڈل کمیشن میں غیر ہندو برادریوں کے لیے بھی ریزرویشن کا انتظام ہے، نہ پی ایم اور نہ ہی امت شاہ نے اسے پڑھا ہے۔ وہ اسے پڑھے بغیر ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔ گولوالکر کی طرف سے ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ عنوان کی کتاب شائع ہوئی تھی، کیا بی جے پی والوںنے اسے کبھی رد کیا؟ 2014 میں یہ لوگ سالانہ 2 کروڑ نوکریاں دینے کا نعرہ لے کر آئے تھے۔ لیکن کتنی نوکریاں دی گئیں؟ اگر نوکریاں ختم کیں تو اس کے ساتھ ریزرویشن ختم ہو گیا۔ ان کا رویہ بتاتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں ملک یا آئین محفوظ نہیں ہے۔بی جے پی کے لوگ ہی یہ کہتے آ رہے ہیں کہ آئین کو تبدیل کرنے کے لئے انھیں 400 سیٹوں کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب پی ایم نریندر مودی کا الزام ہے کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لئے صرف ان کی فیملی ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اتر پردیش کے بارہ بنکی میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران پی ایم مودی کا کہنا تھا کہ جب ملک آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اس وقت کچھ لوگ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کر رہے تھے اور آخر کار انھوں (کانگریس) نے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔یہ ان کا ٹریک ریکارڈ ہے ۔اگر ایس پی اور کانگریس اقتدار میں آئے تو وہ رام للا کےمندر کو بلڈوز کر دیں گے۔پی ایم کا دعویٰ تھا کہ جیسے جیسے انتخابات آگے بڑھ رہے ہیں، اپوزیشن اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی ہے۔

انتخابی تشہیر کی ہوڑ میں ہو رہے چناوی دعوؤں کے درمیان کانگریس لیڈر راہل گاندھی بھی بھلا کیوں خاموش رہیں گے۔ان کی پارٹی نے کل بروز جمعہ رائے بریلی میں ایک چناوی ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ اس ریلی کا ویڈیو راہل گاندھی کے ہینڈل سے شیئر کیا گیا ہے ، جس میں لکھا گیا ہے، ’’آج میں امیٹھی اور رائے بریلی سے وعدہ کرتا ہوں۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے آپ سے جو چھینا ہے اس سے زیادہ ہم آپ کو واپس دیں گے۔ ہم ایک بار پھر امیٹھی اور رائے بریلی کو روزگار کے مراکز بنائیں گے۔بی جے پی نے امیٹھی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آپ سے فوڈ پارک چھین لیا گیا، اے کے 47 کی فیکٹری تھی، اس کا ٹھیکہ چھین لیا گیا۔ وہ پبلک سیکٹر کے کارخانوں کی نجکاری کر رہے ہیں۔ہم نے یہاں جو کچھ دیا، نریندر مودی نے اسے چھیننے کی کوشش کی۔ہم چاہتے ہیں کہ امیٹھی ایک چمکتا ہوا ستارہ بنے۔ یہاں وہی ترقی ہوگی جو پہلے ہوئی تھی۔

ملک کےعوام بر سر اقتدار جماعتوں (این ڈی اے) اور اپوزیشن اتحاد (انڈیا) دونوں کی باتوں کو غور سے سن رہے ہیں، لیکن ان میں بیشتر اپنے دل کا حال کسی کو بھی بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔چنانچہ ایک طرف تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کرنے والی جماعتوں کے لیڈر یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اب صرف غیر ذمہ دارانہ وعدوں اور یقین دہانیوں سے کام نہیں چلنے والا ہے، تو دوسری طرف مبینہ طور پر این ڈی اے سے اقتدار چھیننے کی کوشش کرنے والی اپوزیشن جماعتوں ’’ انڈیا‘‘ کے لیڈر بھی یہ سمجھ چکے ہیںکہ اب پنگھٹ کی ڈگر بہت آسان نہیں رہ گئی ہے۔ عوام اپنے ملک کی باگ ڈور اسی اتحاد کو سو نپنے جا رہے ہیں،جن کے ہاتھوں میں ملک، ملک کے عوام، ملک کا آئین اور ملک کے جمہوری اقدار کے ساتھ ساتھ ہمارے دیرینہ سماجی تانے بانے، تنوع، باہمی بھائی چارہ اور ہماری ساجھی سنسکرتی محفوط رہے گی۔ملک کے عوام کو اب نفرت قطعی پسند نہیں ہے۔
*************