کوئی ہے ، جو ہمارے اُس بھارت کو لوٹا دے !

تاثیر،۱۰       مئی ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

سات مرحلوں والے لوک سبھا انتخابات جیسے جیسے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے انتخابی جلسوں میں استعمال کی جانے والی ’’مسلم مخالف ‘‘ زبان کی دھار سے ملک و بیرون ملک کے مہذب لوگوں کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابی جلسوں میں اس طرح کی زبان اور اس طرح کا لہجہ ایسے وقت میں استعمال کیا جا رہا ہے جب کئی سیاسی ماہرین پی ایم نریندر مودی کے مسلسل تیسری بار عام انتخابات جیتنے کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔انتخابات کے گزشتہ تین مرحلوںکے بعد سے تو کچھ لوگ یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ ہم نے اس سطح کی انتخابی تقاریر کبھی نہیں سنی تھی۔ان تقاریر سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ مستقبل کے لئے قطعی اچھے نہیں ہیں۔
  1993 کے ممبئی فسادات کے بعد امن کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے ممبئی کے سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم کے عرفان انجینئر کا کہنا ہے ،’’ اس طرح کی تقاریر سے مذہبی پولرائزیشن بڑھےگا اور یہ مستقبل کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔جہاں 2014 اور 2019 کے انتخابات’’ کرپشن ،اچھے دن اور قوم پرستی‘‘ کے ایجنڈے پر لڑے گئے، وہیں 2024 کے انتخابات ’’مسلم مخالفت‘‘ کی بنیاد پر لڑے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا ماننا ہے کہ 400 سیٹوں کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
  اخبار’’ انڈین ایکسپریس‘‘ نے پچھلے دنوں پی ایم نریندر مودی کے ذریعہ راجستھان کے بانسواڑہ میںکی گئی ایک تقریر کے حوالے ایک اداریہ لکھا تھا ، جس کی سرخی تھی’’نہیں، پی ایم نہیں‘‘۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے چند دنوں قبل ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا تھا ،’’ جب میں نے کانگریس کا منشور دیکھا تو سوچنے لگا کہ یہ کانگریس پارٹی کا منشور ہے یا مسلم لیگ کا منشور ہے۔‘‘  بی جے پی کے سوشل میڈیا انچارج امیت مالویہ نے سوشل پلیٹ فارم پر لکھا ، ’’ یہ واضح ہے کہ کانگریس ہماری جائیداد  اورہماری چھوٹی بچت کو اپنے کنٹرول میں لےلیگی اور اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دیگی ۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک تقریر میں کہا،’’اس بار کانگریس نے سرکاری ملازمتوں میں مذہبی اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کا اشارہ دیا ہے، جس پر اگر عمل ہوتا ہے تو اس میں مسلح افواج کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ’دیش کے غداروں کو ، گولی مارو …..‘‘کا نعرہ دینے والے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے ایک ریلی میں کہا، ’’کانگریس کے انتخابی منشور میں کانگریس کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کا ہاتھ بھی نظر آ رہا ہے۔ جو لوگ آپ کے بچوں کی جائیداد مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔‘‘ حالانکہ کانگریس کے منشور میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر کہیں بھی اس طرح کے الفاظ نہیں ہیں۔
  ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی مسموم تقریروں کے خلاف ہر طرف خاموشی ہی ہے۔ ملک میں امن اور خوشحالی بحال رکھنے والے اس طرح کے لہجے کے خلاف آواز بھی اٹھارہے ہیں۔ لیکن ، انھیں بھی اسی انداز میں یہ جواب دیا جا رہا ہے ، ’’کیا اس ملک میں سر کو جسم سے جدا نہیں کیا گیا؟ کیا اس ملک میں’’ غزوۂ ہند ‘‘کا نظریہ نہیں آیا؟ کیا اس ملک میں ووٹ جہاد نہیں آرہا ہے؟ یہ سب باتیں سچ ہیں تو ہم کون سا جرم کر رہے ہیں؟‘‘  بی جے پی اقلیتی مورچہ کے سربراہ جمال صدیقی نے پی ایم نریندر مودی کی تقریر کے حوالے سے یہ کہہ رہے ہیں ،’’ مودی جی نے ہمیشہ مسلمانوں کی بھلائی کے بارے میں سوچا ہے۔‘‘ صرف اتنا ہی نہیں جمال صدیقی یہ بھی واضح کرتے ہیں،’’ درانداز کا مطلب مسلمان نہیں ہوتا ہے۔ ہم اسے مسلمانوں پر کیوں تھوپ رہے ہیں؟ پاکستان سے آنے والے لوگ ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش سے آنے والے لوگ یہاں روزگار کو لوٹ رہے ہیں۔ جہاں تک زیادہ بچہ پیدا کرنے کی بات ہے تو اسمیں ہندو بھی شامل ہیں۔ ‘‘
  بی جے پی اقلیتی مورچہ کے سربراہ جمال صدیقی کے مطابق، ’’جب پی ایم نریندرمودی کے سامنے سوالات آتے ہیں، جب کانگریس اپنا منشور پیش کرتی ہے، جب کانگریس کے شہزادے راہل بھیا اپنی بات کرتے ہیں، جب وہ مودی جی پر حملہ کرتے ہیں، تو مودی جی کو بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘  جمال صدیقی بتاتے ہیں ، ’’ابھی حال ہی میں ’’ٹائمس ناؤ‘‘  ٹی وی چینل سے بات چیت میں، مسلمانوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پی ایم نریندر مودی نے کہا، ’’خود کا جائزہ لیں اور سوچیں، ملک اتنی ترقی کر رہا ہے، اگر آپ کے معاشرے میں کمی محسوس کی جا رہی ہے، تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کانگریس کے دور میں حکومت کے انتظامات کا فائدہ آپ کو کیوں نہیں ملا؟ ‘‘  ظاہر ہے  جمال صدیقی کو اپنے منصب کا بھی تو خیال رکھنا ہے۔
اِدھر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات کے بعد سے نفرت آمیز تقریر کرنے والو ں کو عوام بری طرح ناپسند کرنے لگے ہیں۔پہلے ان کی تقریر یںسننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے اور تقریر وں کوسننے کے بعد مثبت تبصرے کیا کرتا تھا۔ لیکن ،جب سے ان لیڈروں نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنانا شرو ع کر دیا ہے ، انھیں ان کے لوگ ہی نا پسند کر تے ہوئے یہ کہنے لگے ہیں،’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو خطرے میں ہیں، وہ یہ کیوں نہیں بتاتے ہیں کہ ہندو، ملک میں جن کی آبادی 70 فیصد ہے، وہ کب، کیوں اور کیسے خطرے میں آگئے؟ حالانکہ اپنے ملک کا ایک بھی ہندو اپنے آپ کو کہیں سے خطرے میں نہیں سمجھتا۔کہیں یہ ’’فرضی ہندو‘‘ تو نہیں ہے، جس کی آڑ میں بی جے پی ہمیشہ بر سر اقتدار رہنا چاہتی ہے ؟‘‘ انھیں سیکولر ہندؤں میں ایسے بھی بہت ہیں جو یہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ غیر ذمہ دار لیڈروں کی وجہ سے ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک غیر اعلانیہ خلیج پیدا ہونے لگی ہے۔ایسے میں مسلم کمیونٹی اپنے ہی ملک میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے۔ اس وجہ سے ان کے منہ سے اکثر یہ سنا جانے لگا ہے کہ اب یہ وہ بھارت نہیں رہا ،جس میں ہم مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر انگریزوں کو بھگا یا تھا۔لہٰذا، کوئی ہے ، جو ہمارے اُس بھارت کو لوٹا دے