امریکہ اور سعودی عرب ’ تاریخی معاہداتی پیکج‘ کے قریب تر

تاثیر۴       جون ۲۰۲۴:- ایس -ایم- حسن

واشنگٹن،04جون:امریکہ اور سعودی عرب تاریخی معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ریاض میں امریکی سفیر نے بتایا ہے کہ اس متوقع معاہدے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی سے متعلق امور کی شراکت داری مزید بڑھانے کا موقع ملے گا۔معاشی معاہدات میں بہتری ہو گی اور اس کا فلسطینیوں کو بھی فائدہ ہو گا۔سفیر کے مطابق یہ معاہدہ مکمل ہونے سے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو گی اور سعودی مملکت کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو سکیں گے۔سعودی عرب میں امریکی سفیر مائیکل ریٹنی نے کہا کہ ‘ہم تاریخی لفظ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے ساتھ معاہدوں کا یہ پیکج واقعی تاریخی ہوگا’ لیکن اس کے اس معاہدے کے ایک حصے کا تعلق اور کردار فلسطییوں کے لیے بھی اہم ہوگا۔ سعودیوں نے واضح طور پر اسے اپنے لیے ایک ضرورت کہا ہے اور ہماری بھی اپنی توقعات ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے ریاست کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہونا چاہیے۔’ ان خیالات کا اظہار اپنے ایک تازہ انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
واضح رہے جوبائیڈن انتظامیہ طویل عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ ایک تاریخی معاہدہ ہو جائے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا سعودی عرب کا دورہ اس سلسلے میں انتہائی اہم پیش رفت کے لیے اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے اس حملے نے سارا نقشہ کار تبدیل کردیا ہے اور وہ مذاکراتی عمل معطل ہو کر رہ گیا۔ذرائع کا دعوی ہے کہ اس ممکنہ معاہدے کے پیش نظر امریکی انتظامیہ کبھی بھی اس سلسلے میں بے تعلق ہو کر نہیں بیٹھی جبکہ غزہ جن کی وجہ سے خطے کا منظرنامہ بدل رہا ہے اور امریکہ میں صدارتی انتخابات قریب ہیں اس لیے امریکہ کے لیے معاہداتی پیکج کی خاطر تحرک پیدا ہونا فطری ہے۔تاہم معاہدے کی تفصیلات جزوی سطح کی تبدیلی ہے اب امریکہ پر بڑی رکاوٹ اسرائیل بن چکا ہے حالانکہ اس معاہدے کا فائدہ اسرائیل کے لیے غیر معمولی ہے۔
سعودی عرب یہ کہتا رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کا وجود میں لانا اس معاہدے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ان امور سے آگاہ حکام نے حال ہی میں ‘ العربیہ’ کو بتایا کہ جوبائیڈن انتظامیہ آنے والے ہفتوں میں سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر عاید کی پابندی ختم کر دے گی۔جوبائیڈن انتظامیہ نے شروع میں خلیجی ممالک کو اپنے متعدد اقدامات کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔ اس سلسلے میں ایران اور حوثیوں سے متعلق اقدامات بھی شامل تھے اور خارجہ پالیسی سمیت انسانی حقوق کے بعض حربے بھی شامل تھے۔ حتیٰ کہ خلیجی اتحادیوں کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت بھی روک دی۔امریکی سفیر رتنی کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدات کی سینیٹ سے توثیق ایک باضابطہ معاہدہ ممکن بنا دے گی جس کا انحصار کسی خاص امریکی انتظامیہ پر نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک پائیدار معاہدہ ہو گا، انتظامیہ یا حکومت کے درمیان نہیں، بلکہ دو مملکتوں کے درمیان معاہدہ ہو گا۔’رتنی نے کہا حفاظتی انتظامات کی تفصیلات اور امریکہ/جاپان اتحاد سے موازنہ، جو جاپانی سرزمین پر امریکی فوجی اڈوں کی اجازت دیتا ہے اور حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرنے کے لیے دونوں ممالک کے عزم پر ابھی بھی بات چیت جا ری ہے۔